زرداری صاحب، ایسا نہ کیجیے!
50ء، 60ء اور 70ء کے قائدین حسین شہید سہروردی، میاں افتخارالدین، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، شیخ مجیب الرحمن، ابو الاعلیٰ مودودی، خان عبدالولی خان، ذوالفقار علی بھٹو، میر غوث بخش بزنجو اور نواب اکبر خان بگٹی سے کتنا ہی اختلاف کیا جائے مگر ان کی شخصیت اور سیاست کے اس پہلو کا تو اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے کہے کا پاس رکھتے تھے۔
لفظ کی حرمت انہیں اتنی عزیز تھی کہ برسوں نہیں دہائیاں کیمپوں اور کال کوٹھریوں میں گزار دیں حتیٰ کہ پھانسی گھاٹ پر بھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔
نواب اکبر خان بگٹی اپنی آخری عمر تک فخریہ بیان کرتے تھے کہ انہوں نے 12 سال کی عمر میں پہلا قتل کیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے 6 نکات کا جو بیڑہ اٹھایا تو لاکھوں کا خون بہاکر آزادی حاصل کی۔
بھٹو صاحب نے تاشقند ڈکلیئریشن کی تھیلی سے جو بلی نکالی اس نے پنجے مار مار کر ایوبی آمریت کو لہولہان کردیا۔ ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ بھٹو صاحب نے جو قوم کو دیا اسے پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت آج تک بیچ رہی ہے۔
یہ ساری تمہید اس لیے باندھی کہ ہماری موجودہ قیادت رات کے پہر میں جو بیان دیتی ہے ابھی اخبارات میں اس کی سیاہی اور اسکرینوں پر بازگشت سنائی ہی دے رہی ہوتی ہے کہ پیچھے پیچھے تردید کی لائن لگی ہوتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمارے یہ بڑ بولے سیاستدان ایسی ایسی سیاسی اصطلاح اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کررہے ہوتے ہیں جو انہوں نے برس دو برس پہلے ہی اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد میں استعمال کی ہوتی ہیں۔