مہاراجہ رنجیت سنگھ: روشن خیال اور دلیر جنگجو کی ملی جلی تصویر
برِصغیر میں صدیوں سے 3 مذاہب، اسلام، ہندوازم اور سکھ ازم کے پیروکار رہتے ہیں۔ ہندوؤں کی اس خطے میں حکمرانی کی تاریخ کئی ہزار سال پر مشتمل ہے، جبکہ مسلمانوں نے بھی یکے بعد دیگرے حکمرانی کرتے ہوئے ایک ہزار سال سے زائد وقت صرف کیا۔ لیکن ان تینوں میں سکھ واحد ہیں جنہیں صرف ایک بار مکمل طور پر حکمرانی کرنے کاموقع ملا۔ 'سکھ سلطنت' کے بانی اور سلطان کا نام مہاراجہ رنجیت سنگھ ہے۔
ان کی فتوحات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہی فاتح رہنے کے لیے ہوئے تھے۔ تاریخ نے یہ بات درست بھی ثابت کی۔ وہ بلا شرکتِ غیرے اتنے بڑے خطے کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ پایہءِ تخت پر بیٹھ کر انہوں نے ریاست کی حدود کو وسیع کیا، بیرونی حملہ آوروں کی روک تھام کی اور خطے کی ترقی کے لیے اپنی قائدانہ صلاحیتیں صرف کیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ ان معدودے چند عالمی حکمرانوں میں شامل ہیں جنہیں کبھی میدانِ جنگ میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی زندگی اور فتوحات پر بات کرنے سے پہلے پس منظر میں جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں ہندوستان مغلوں کے ہاتھ سے نکل رہا تھا، جبکہ افغانستان اور ایران سے آنے والے حملہ آوروں کی یورش دن بدن بڑھ رہی تھی جس کے خلاف مزاحمت ہندوستان کے مقامی سکھ کرتے تھے۔