پاکستان

جعلی اکاؤنٹ کیس: جے آئی ٹی کو مکمل رپورٹ جمع کروانے کیلئے 2ہفتوں کی مہلت

عدالت عظمیٰ نے تمام بینکوں کے نمائندگان کو طلب کرتے ہوئے عبدالغنی مجید کو بھی آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
|

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) سے 2 ہفتوں میں مکمل رپورٹ طلب کر تے ہوئے آئندہ سماعت پر اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی، اس دوران جے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کی جبکہ نمر مجید بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے نمر مجید سے استفسار کیا کہ بتائیں بینک سیکیورٹی کے معاملے پر آپ نے کیا کیا؟ جس پر نمر مجید نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم میں اس حوالے سے لاعلم ہوں.

مزید پڑھیں : سپریم کورٹ کا جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 'جے آئی ٹی' بنانے کا حکم

نمر مجید کی لاعلمی کے اظہار پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ کو جیل بھجوا دیں، ہم نے آپ کو اس لیے باہر رکھا کہ بینکوں سے اومنی گروپ کے معاملات نمٹا سکیں۔

چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں نمر مجید کی طبیعت خراب ہوگئی جس پر انہیں وکلا کے لیے مخصوص نشست پر بٹھا کر پانی پلایا گیا۔

دوران سماعت نمر مجید کی اہلیہ اور والدہ بھی عدالت میں پیش ہوئیں، جس پر چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ وہ دونوں بھی تفتیش میں تعاون کریں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نمر مجید کے اہلِ خانہ سے کہا کہ دولت رحمت ہوتی ہے اسے زحمت نہیں بنائیں، میں آپ کے دوسرے بیٹے کو بھی لاہور میں بلا رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل تمام بینک والوں کو اکٹھا کریں مل بیٹھ کر معاملے کو دیکھیں اور فوجداری کارروائی بھی شروع ہو۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے نمر مجید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس دن میں نے آپ کو آپ کی والدہ اور اہلیہ کی وجہ سے گرفتار نہیں کرایا تھا، جس پر عدالت میں موجود نمر مجید کی والدہ نے کہا کہ ہم تمام نقصان پورا کرنے کو تیار ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں 54 ارب روپے کا بھی پتا ہے کہ وہ کہاں گئے، ہنڈی کے جو کاغذات گڑھے میں چھپائے گئے اس کا بھی علم ہے، کھڈے سے جو کاغذ نکلے ہیں ہمیں وہ بھی معلوم ہے، آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہم بہت کچھ جانتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے مجید خاندان کو بینکوں سے لین دین طے کرنے کے لیے بہت وقت دیا، اب بینکوں کے مالکان اور عبد الغنی مجید کو بلا کر دیکھ لیتے ہیں، اس دوران نمر مجید کی اہلیہ نے بتایا کہ باقی تمام بینک مان گئے ہیں لیکن نیشنل بینک نہیں مان رہا.

یہ بھی پڑھیں : جعلی اکاؤنٹس کیس: زرداری گروپ کی 2 نئی کمپنیوں کا انکشاف

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عبدالغنی مجید کو اڈیالہ جیل منتقل کریں، وہ فون پر بیٹھ کر سارے معاملات جیل سے چلا رہے ہیں، کئی مرتبہ کہا ہے کہ ان سے فون لیا جائے کیونکہ فون پر ہدایات دی جارہی ہیں.

دوران سماعت چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق سے استفسار کیا کہ آپ کی رپورٹ کب تک مکمل ہوگی جس پر انہوں نے کہا کہ ایک ماہ کا وقت دے دیں، جس پر چیف جسٹس نے انہیں رپورٹ مکمل کرنے کے لیے 2 ہفتوں کا وقت دے دیا.

سماعت کے دوران سندھ بینک کے وکیل خواجہ نوید نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ کا 70 سے 80 فیصد سرمایہ بینکوں سے قرض ہے، بینکوں سے کہا جائے کہ ملوں کا کنٹرول حاصل کرلیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بینکوں کو بلا لیتے ہیں، یہ بینکوں کا نہیں عوام کا پیسہ ہے،بینکوں کے نمائندے عدالت میں پیش ہوں گے تو ہم ان سے ساری صورتحال سمجھ لیں گے۔

چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی سے کہا کہ اومنی گروپ کے ہنڈی کے پیسے بھی مل گئے ہیں،جو لانچوں کے ذریعے پیسے بھیجتے رہے ہیں وہ واپس کر دیں، آپ عوام کا پیسہ واپس کر دیں ہم کیس ختم کر دیں گے۔

جس پر وکیل اومنی گروپ نے عدالت سے کہا کہ اومنی گروپ 3 ملیں اور ڈیفنس کی جائیدادیں بینکوں کو دینے کے لیے تیار ہیں، اس پر نیشنل بینک کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ ہمیں یہ چیز منظور نہیں۔

بعد ازاں دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے جے آئی ٹی کو مکمل تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے متعلقہ بینکوں کے اعلی حکام کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔

اس کے علاوہ عدالت نے گواہان کی گمشدگی کے معاملے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کو نوٹس جاری کردیا، ساتھ ہی عدالت نے نیب کو آئندہ سماعت میں عبدالغنی مجید کو بھی پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے مذکورہ کیس کی سماعت 17 نومبر تک ملتوی کردی

جعلی بنک اکاؤنٹس ایف آئی اے رپورٹ

قبل ازیں عدالت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جعلی بینک اکاؤنٹ کیس سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اومنی گروپ نے قرض کے لیے 75 لاکھ 25 ہزار 5 سو 36 چینی کی بوریوں کی گارنٹی دی تھی، تاہم تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ شوگر ملوں میں صرف 8 لاکھ 35 ہزار 8 سو 89 بوریاں موجود ہیں جبکہ 66 لاکھ 92 ہزار 9 سو 46 بوریاں غائب ہیں، ان بوریوں کے غائب ہونے کی وجہ سے بینکوں کی ساڑھے 11ارب روپے کی گارنٹی کا نقصان ہوا۔

مزید پڑھیں : جعلی اکاؤنٹس کیس: ’334 افراد، 210 کمپنیاں مشکوک ٹرانزیکشنز میں ملوث‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، متعلقہ بینکوں اور اومنی گروپ سے بھی ریکارڈ حاصل کیا جارہا ہے۔

عدالت میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق بینکوں اور اومنی گروپ کی انتظامیہ سمیت شوگر ایجنٹس کے بیان ریکارڈ کیے جائیں گے جبکہ مذکورہ معاملے سے متعلق مزید ریکارڈ کا جائزہ لے کر پیش رفت رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔