دنیا

پیرس: جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ، امریکی اور ترک صدور کی ملاقات

ملاقات ترک صدر کے اس بیان کے کچھ گھنٹوں کے بعد ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ صحافی کے قتل کی ٹیپ امریکا سےشیئرکی گئی ہے۔

صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی سطح پر سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ادوان کے ساتھ فرانس کے دارلحکومت پیرس میں ملاقات کی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طیب اردوان اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمونیل مکرون کی دعوت پر ہفتے کے روز پیرس پہنچے تھے، جہاں وہ دنیا کے دیگر ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ یوم امن سے متعلق تقریب میں شرکت کریں گے۔

خیال رہے کہ امریکی اور ترک صدور کی ملاقات رات کے کھانے پر ہوئی جہاں دیگر ممالک کے سربراہان بھی موجود تھے۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی قتل، ناروے نے سعودی عرب کو دفاعی سامان کی فراہمی روک دی

یاد رہے کہ ہفتے کے روز پیرس آنے سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب ادوان نے کہا تھا کہ انہوں نے سعودی صحافی کے قتل سے متعلق ریکاڈنگ امریکا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ سے شیئر کی ہے، جس کا مقصد ترکی کے اتحادیوں پر مذکورہ تنازع پر رد عمل کے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس سے قبل ترک ذرائع نے بتایا تھا کہ حکام کے پاس ایک آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے جس میں مبینہ طور پر صحافی کے قتل کی تفصیلات موجود ہیں۔

واضح رہے کہ ایسی کسی ریکارڈنگ سے متعلق کبھی بھی حکام نے تصدیق نہیں کی۔

ریاض قاتلوں کے بارے میں جانتا ہے، طیب اردوان

یاد رہے کہ ترک صدر طیب اردوان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، جمال خاشقجی کے قاتل سے واقف ہے جو 2ا کتوبر کو 15 افراد پر مشتمل گروپ کے ساتھ کچھ گھنٹوں کے لیے استنبول میں قائم قونصلیٹ آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹیپ دے دیں ہیں، ہم نے یہ ٹیپس سعودی عرب، امریکا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کو فراہم کردی ہیں، جس میں تمام بات چیت سنی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ بدھ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم آئندہ ہفتے جمال خاشقجی کے حوالے سے سخت موقف پیش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: 'جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے تیزاب میں تحلیل کیے گئے'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس معاملے پر سخت موقف اختیار کریں گے، جس کے لیے ہم امریکی کانگریس، ترکی اور سعودی عرب سے مل کر کام کررہے ہیں اور میں سخت موقف تیار کررہا ہوں'۔

رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا تھا کہ ترک پولیس نے صحافی کی لاش تلاش کرنے کا سلسلہ ترک کردیا ہے لیکن 59 سالہ صحافی کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ استنبول میں قائم سعودی قونصل جنرل کی رہائش گاہ سے تیزاب کے شواہد ملے ہیں جس کے بارے میں یہ تصور سامنے آیا ہے کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے تیزاب کا استعمال کیا گیا تھا۔

قونصل جنرل کی رہائش گاہ سعودی قونصلیٹ سے کچھ فاصلے پر قائم ہے۔

ریاض نے متعدد مرتبہ موقف تبدیل کیا

سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے متعدد مرتبہ اپنے موقف میں تبدیلی کی اور ابتدا میں صحافی کے قتل سے انکار کیا تاہم بعد ازاں قاتلوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ملک کے قانون کے مطابق کیس چلانے کا اعلان بھی کیا۔

ریاض نے سعودی عرب پر اور خاص طور پر ولی عہد پر جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات پر سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا تھا اور خاشقجی پر مختلف نوعیت کے الزامات لگائے تھے۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی ’خطرناک شدت‘ پسند تھے، سعودی ولی عہد

31 اکتوبر کو استنبول کے چیف پراسیکیوٹر نے مذکورہ کیس میں اپنے پہلے سرکاری بیان میں کہا تھا کہ صحافی کو قونصلیٹ میں داخل ہونے کے بعد قتل کیا گیا اور ان کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔