آسیہ بی بی کیس: ’جماعت الدعوۃ عدالتی فیصلے کا احترام کرتی ہے‘
لاہور: جماعت الدعوۃ کو آسیہ بی بی کیس کے فیصلے پر تحفظات ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ عدلیہ سمیت قومی اداروں کا احترام کرنا چاہیے جس کی وجہ سے انہوں نے حالیہ احتجاج میں شرکت نہیں کی۔
جماعت الدعوۃ کے ترجمان احمد ندیم نے ڈان سے بات کرتے ہوئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے احتجاج پر خاموش رہنے کی وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ ہماری جماعت نے عدالتی فیصلہ آنے کے بعد 2 دن احتجاج کا اعلان کیا تھا تاہم جب احتجاج پر تشدد ہوا تو ہماری جماعت نے فیصلہ کیا کہ سڑکوں پر آنے کے بجائے اسے جمعے کی نماز تک محدود رکھا جائے۔
مزید پڑھیں: ’آسیہ بی بی کے ملک چھوڑ جانے کی خبر انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے ‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جس دن یہ فیصلہ آیا، ہماری جماعت کے اہم رہنما پہلے ہی سے اجلاس میں تھے جس میں اس فیصلے کے اثرات بھی زیر بحث آئے اور سینیئر وکیلوں سے معاملے پر مشاورت کی گئی جس کے بعد جماعت نے اسے قانونی غلطی قرار دیتے ہوئے اس کا قانونی حل طلب کرنا ہی بہتر سمجھا‘۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے طویل ٹرائل کے بعد آسیہ کو سزائے موت سنائی اور لاہور ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا، لیکن اب سپریم کورٹ نے انہیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت الدعوۃ کا ماننا ہے کہ شک کا فائدہ صحیح ہے یا غلط اس کا فیصلہ عدالت میں وکیلوں کے ذریعے دی جانے والی درخواست سے ہی سامنے آسکتا ہے جس کی وجہ سے ہم نے سڑکوں پر جانے کے بجائے قانونی کارروائی کے مکمل ہونے کے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا،
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ نے آسیہ بی بی کے وکیل کے دعوؤں کو مسترد کردیا
ترجمان کا کہنا تھا کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ نے ان ہی وجوہات کی بنا پر سب سے پہلے نظر ثانی پٹیشن کا مطالبہ کیا جس کا مفتی منیب، سراج الحق سمیت دیگر نے پیروی کی۔
اپنی جماعت کا پرتشدد نہ ہونے کا فلسفہ ثابت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جب حکومت نے ہماری جماعت کے فلاحی کاموں کو روکا تھا تب بھی ہم سڑکوں پر نہیں نکلے تھے اور صرف اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہماری جماعت کے سربراہ جب حافظ سعید کو رواں سال جنوری میں گرفتار کیا گیا تھا ہم تب بھی پر امن رہے تھے اور اپنی توجہ یوم کشمیر کی طرف مبذول کر رکھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ہم پر امن ہیں اور قانونی کارروائی کا احترام کرتے ہیں‘۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 11 نومبر 2018 کو شائع ہوئی