پاکستان

حکومت کا نجکاری سے قبل سرکاری اداروں کو منافع بخش بنانے کا عزم

آئی ایم ایف کے وفد کو بتایا گیا کہ حکومت منافع بخش سرکاری اداروں کو نجی سرمایہ کاری کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اسلام آباد: حکومت نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کو آگاہ کیا کہ وہ ایک ’دولت فنڈ‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے خسارے کا شکار اداروں کو فروخت سے قبل منافع بخش ادارہ بنایا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے سلسلے میں حکام کی وفد سے ملاقاتیں جاری ہیں جس میں اسٹیٹ بینک، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، اور وزارت خزانہ کے حکام نے سرکاری اداروں کی نجکاری کے حوالے سے مذکورہ منصوبہ پیش کیا۔

باضابطہ مشاورت میں ہونے والی تکنیکی نوعیت کی گفتگو کا مرکز ٹیکس کے معاملات اور ریونیو بڑھانا ہے جو آئندہ ہفتے تک جاری رہے گی جس کے بعد پاکستان کےساتھ قرض حاصل کرنے کی درخواست پر پالیسی سطح کی گفتگو کا آغاز کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے بات چیت کا آغاز

اس سلسلے میں آئی ایم کے وفد کو بتایا گیا کہ حکومت منافع بخش سرکاری اداروں کو نجی سرمایہ کاروں کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وفد کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز، پاکستان ریلوے، یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن، نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو فروخت کے لیے پیش نہیں کیا جائے گا جس میں تمام ادارے کمرشل ہیں سوائے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے جو ایک انتظامی ادارہ ہے۔

اس کے علاوہ وفد کو وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے دیے گئے متعدد پالیسی بیانات کے بارے میں بھی بتایا گیا جس میں انہوں نے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو نجکاری سے قبل مالی طور پرمستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی آئی ایم ایف سے سب سے بڑا قرض پیکیج حاصل کرنے کی کوشش

وفد نے حکام سے ’دولت فنڈ‘ کے مالیاتی ذرائع کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت رفتہ رفتہ ہر ادارے میں سرمایہ کاری کرے گی اور اس سلسلے میں میرٹ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اداروں کو منتخب کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف کے عہدیداران کو بتایا گیا کہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری وزارت صنعت کو دسمبر کے وسط تک اسٹیل مل کے حوالے سے حکمتِ عملی وضع کرنے کی ہدایت کرچکی ہے اور اسی طرح متعلقہ وزارت، نجکاری کے لیے پیش کرنے سے قبل دیگر اداروں کے لیے بھی کرے گی۔

خیال رہے حکومت اور آئی ایم وفد کے درمیان شعبہ توانائی کے بارے میں پہلے ہی گفتگو ہوچکی ہے اور اب مانیٹری پالیسی اور تین سالہ مالی خلا کو پر کرنے کے لیے ملک کو درکار رقم کے حوالے سے غور و خوض کیا جائے گا۔