پاکستان

'پاناما پیپرز لیکس میں 444 پاکستانیوں کے نام شامل'

وزارت خزانہ نے پاناما کیس میں شامل پاکستانیوں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کرادیں۔
|

وزارت خزانہ نے پاناما پیپرز لیکس میں شامل پاکستانیوں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پاناما لیکس میں 4 سو 44 شہریوں کے نام شامل ہیں۔

قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت خزانہ نے تحریری جواب جمع کرایا جس کے مطابق پاناما لیکس میں شامل 4 سو 44 پاکستانیوں میں سے 2 سو 94 افراد کو نوٹس جاری کئے گئے جبکہ ایک سو 50 افراد کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔

وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز لیکس میں شامل 12 افراد وفات پا چکے جبکہ 4 پاکستانی شہری نہیں رہے۔

وزارت کا کہنا تھا کہ 10 ارب 90 کروڑ روپے کی کرپشن کے 15 کیس حتمی مرحلے میں ہیں جبکہ اب تک 6 ارب 20 کروڑ روپے کی وصولیاں کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: نیب کا پاناما پیپرز میں شامل ناموں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ

قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ تحقیقات میں مدد کے لیے ایف بی آر نے او ای سی ڈی سے بھی مدد مانگی ہے۔

علاوہ ازیں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے ایوان میں وزارت داخلہ کی جانب سے جوابات نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سوالوں کے جواب کون دے گا، کیا کوئی بھی ذمہ دار بندہ موجود نہیں؟ ایسے ایوان نہیں چلے گا۔

بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی نے احتجاجا اجلاس 10 منٹ تک ملتوی کرتے ہوئے جوابات نہ دینے والی وزارتوں کے سیکریٹریز کو اپنے چیمبر میں طلب کر لیا۔

وقفے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اسپیکر نے ایوان کو بتایا کہ اپنے چیمبر میں سیکریٹریز کو بلایا تھا اور سب سیکریٹریز کو وارننگ دی ہے کہ آئندہ ایسا رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما پیپرز کی دوسری قسط: 259 پاکستانیوں کے نام شامل

بعد ازاں وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے دعویٰ کیا کہ وہ سینٹ میں موجود تھے اور شہریار آفریدی کی غیر موجودگی میں تمام جواباب دیں گے۔

ادھر وزیر مملکت برائے خزانہ حماد اظہر نے ایوان کو بتایا کہ ایف بی آر نے بیرون ملک 96 ہزار پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کا ڈیٹا حاصل کر لیا ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ 96 ہزار اکاؤنٹس پاناما لیکس کے علاوہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے پاناما لیکس میں شامل 2 سو 42 افراد کے خلاف جان بوجھ کر کارروائی شروع نہیں کی تھی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے ان افراد کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔

اس موقع پر محسن شاہ نواز رانجھا نے سوال کیا کہ وزیر یہ بتائیں کہ علیمہ خان کی بیرون ملک جائیداد کے حوالے سے کیا اقدامات کئے گئے ہیں جس پر وزیر مملکت برائے خزانہ نے بتایا کہ کوئی بھی خاتون ہو یا مجھ سمیت کوئی شخص، جس کا نام بھی آیا تو کارروائی ہوگی۔

سابق وزرائے اعظم کے کیمپ آفسز کے اخراجات کی تفصیلات

قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران سابق وزرائے اعظم کے کیمپ آفسز پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات کابینہ ڈویژن نے پیش کردیں، جن کے مطابق نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے کیمپ آفسز میں 1 ارب 43 کروڑ روپے کے اخراجات ہوئے.

تحریری جواب میں بتایا گیا کہ شاہد خاقان عباسی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی جاتی امرا کیمپ آفس قائم رہا، شاہد خاقان عباسی کے اسلام آباد کیمپ آفس پر صرف 2 سال میں 51 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔

کابینہ ڈویژن نے بتایا کہ نواز شریف کے جاتی امرا کیمپ آفس میں 2013 سے 2018 تک 92 لاکھ سے زائد اخراجات ہوئے۔

وزیر اطلاعات کی تحریک استحقاق کی مخالفت

دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے نیب حکام کے خلاف ایوان میں تحریک استحقاق پیش کرنے کے مطالبے پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ میڈیا ٹرائل کا سلسلہ اپوزیشن لیڈر کے ایوان میں آنے سے شروع ہوا اور وزیر قانون نے اس کی نشاندہی کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن تحریک التوا کے ذریعے تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ تحریک استحقاق لانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی تحریک استحقاق کو قواعد کے مطابق قرار دے دی۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک استحقاق پر قانونی رائے لینے کے بعد ایوان کو آگاہ کروں گا۔

اس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔