بڑے سوالات کے مختصر جوابات ڈھونڈیے ہاکنگ کی آخری کتاب میں
اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ، 'اگر آگے بڑھنا چاہتے ہو تو اپنے قدموں کی چاپ اور ان سے اُڑتی دھول پر دھیان دینے کے بجائے اپنے سر پر جگمگاتے ان گنت ستاروں کو دیکھنا۔ یہ ہمیشہ تمہیں تلاش، جستجو اور کھوج کی طرف مائل کریں گے۔ یہ کائنات کب اور کیونکر وجود میں آئی اور کیا انسان ہی اس بے کراں کائنات میں واحد ذہین مخلوق ہے؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ہمیشہ مضطرب رہو۔‘
2018ء دنیا بھر کی سائنس کمیونٹی کے لیے اگرچہ کئی حوالوں سے یادگار رہا لیکن اسے کئی ایسے نقصان بھی اٹھانے پڑے جن کا مداوا شاید ہی کبھی ممکن ہو۔ انہی میں سے ایک مایہ ناز سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی وفات ہے، جنہیں آئن اسٹائن کے بعد دنیا کا ذہین ترین دماغ اور 20ویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان قرار دیا جاتا ہے۔
ہاکنگ کی ناگہانی وفات کے لگ بھگ 7 ماہ بعد اکتوبر میں ایک کتاب، 'بریف آنسرز ٹو دی گریٹ کوئیسچنز' (بڑے سوالات کے مختصر جوابات)، بیٹنم بکس نیویارک نے شائع کی ہے، جو بنیادی طور پر ہاکنگ کے بہترین کام، ان کے خیالات اور ان کی سوچ کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب کئی حوالوں سے منفرد اور اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب کے آغاز سے ہی یہ تصور قاری کے ساتھ چلتا ہے جیسے یہ ہاکنگ سے اس کی آخری ملاقات ہے۔
بلیک ہولز اور وورم ہولز کے ذریعے دوسری کائناتوں کا سراغ پالینے والے ہاکنگ شاید کافی عرصے پہلے یہ ادراک کرچکے تھے کہ سائنس کی یہ نازک سی ڈوری بھی اب ٹوٹنے کے درپے ہے۔ مگر گزشتہ 55 برس سے ایک الیکٹرک وہیل چیئر پر محدود یہ باہمت اور عظیم انسان موت سے شکست تسلیم کرکے بھی ہارا نہیں۔ وہ آج بھی اپنے علم اور غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ ہم میں موجود تجسس اور کھوج کی نئی شمعیں روشن کررہا ہے۔