بادشاہت کس کا حق؟ سعودی شاہی خاندان میں جوڑ توڑ

سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے سگے لیکن ناراض بھائی احمد بن عبدالعزیز کی اچانک وطن واپسی، 11 ماہ سے گرفتار خالد بن طلال کی رہائی، جمال خاشقجی کے قتل کے مبینہ ماسٹر مائنڈ سعود القحطانی کی دورانِ تفتیش پُراسرار ہلاکت کی اطلاعات اور شاہ سلمان کے اندرونِ ملک دورے نے ایک بار پھر سلطنت میں غیر معمولی کشمکش اور اقتدار کی لڑائی کے اشارے دینے شروع کردیے ہیں۔
احمد بن عبدالعزیز جو ولی عہد محمد بن سلمان کے کھلے ناقد ہیں، ایک ہفتہ پہلے وطن واپس پہنچے جہاں شہزادہ خالد بن بندر، خالد بن سلطان اور مقرن بن عبدالعزیز سمیت شاہی خاندان کی اہم شخصیات نے ان کا استقبال کیا۔
ولی عہد محمد بن سلمان اپنے بھائی کے ساتھ ایئرپورٹ پر چچا کے استقبال کے لیے موجود تھے لیکن چچا نے دونوں بھتیجوں کے ساتھ کوئی تصویر بنوانے سے گریز کیا۔ احمد بن عبدالعزیز جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے محمد بن سلمان کی تصویر سلطنت اور شاہی خاندان کو کیا پیغام دے سکتی ہے چنانچہ احمد بن عبدالعزیز اس پیغام سے بچ کر نکل گئے۔
احمد بن عبدالعزیز نے وطن واپسی سے پہلے برطانیہ اور امریکا سے ضمانت لی ہے کہ انہیں سعودی عرب میں تحفظ حاصل رہے گا۔ واپسی سے پہلے احمد بن عبدالعزیز نے شاہی خاندان کے ناراض اور خودساختہ جلاوطن ارکان سے ملاقاتیں کیں۔ ریاض پہنچ کر انہوں نے شاہی خاندان کے سینئر ارکان، جو ولی عہد سے بدظن اور ناراض ہیں، ان سے بھی ملاقات کی۔

امریکی اور عرب میڈیا کی رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ احمد بن عبدالعزیز کا مشن ولی عہد محمد بن سلمان کے اقتدار کو چیلنج کرنا یا اس چیلنج کے لیے کسی موزوں شخصیت کو تلاش کرنا ہے اور 3 سینئر شہزادے اس مشن میں احمد بن عبدالعزیز کے ساتھ ہیں۔
جرمنی میں خودساختہ جلاوطن شہزادہ خالد بن فرحان کا کہنا ہے کہ احمد بن عبدالعزیز اور مقرن بن عبدالعزیز ہی شاہی خاندان کا وقار بحال کرسکتے ہیں جو جمال خاشقجی کے قتل کے بعد داغدار ہوچکا ہے۔ استنبول اور لندن میں جلاوطن کچھ دیگر شہزادوں کا خیال ہے کہ احمد بن عبدالعزیز بذاتِ خود ولی عہد کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ان حالات میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا احمد بن عبدالعزیز شاہ فیصل کی طرح کامیاب بغاوت کر پائیں گے؟
شاہ فیصل نے 1964ء میں شاہ سعود کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا تھا۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ولی عہد محمد بن سلمان کے اقتدار اور اداروں پر کنٹرول اور دیگر شہزادوں کی پوزیشن کو سمجھنا ہوگا۔
اس کے ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اقتدار کی اس کشمکش کے اصل فریق خاندان کے اندر کون ہیں اور بیرون ملک کس کو بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔
محمد بن سلمان نے ولی عہد بنتے ہی شہزادہ مقرن بن نائف سمیت اہم انٹیلیجنس سربراہوں کو عہدوں سے ہٹایا۔ مقرن بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے بھی ہٹایا گیا تھا اور پھر انہیں منشیات کا عادی قرار دے کر شخصیت مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش میں محمد بن سلمان کے میڈیا مشیران بھی شامل تھے۔
متعب بن عبداللہ نیشنل گارڈز کے سربراہ تھے، انہیں بھی برطرف کیا گیا۔ متعب بن عبداللہ کے وفاداروں کو بھی نیشنل گارڈز سے نکالا گیا۔ محمد بن سلمان نے اپنے وفاداروں کو آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دے کر میجر جنرل احمد حسن العسیری جیسے لوگوں کو اہم عہدے دیے۔ احمد العسیری اب جمال خاشقجی کیس میں گرفتار ہیں جبکہ محمد بن سلمان کے مشیر سعود القحطانی واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق دورانِ حراست پُراسرار طور پر ہلاک ہوچکے ہیں۔
سعودی نیشنل گارڈز بنیادی طور پر شاہی خاندان کے اقتدار کی حفاظت پر مامور ہیں۔ نیشنل گارڈز میں ملک کے اہم قبیلوں کی نمائندگی تھی اور سابق شاہ عبداللہ کا خاندان ہی نیشنل گارڈز کا سربراہ رہا۔ 1963ء سے 2010ء تک عبداللہ بن عبدالعزیز نیشنل گارڈز کے سربراہ رہے۔ بادشاہ بننے پر انہوں نے نیشنل گارڈز کی قیادت اپنے بیٹے متعب بن عبداللہ کو سونپی تھی۔
نیشنل گارڈز کے سربراہ کی حیثیت سے متعب بن عبداللہ سلطنت کے طاقتور ترین فرد تھے لیکن پچھلے سال کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر وہ بھی گرفتار ہوئے۔ متعب بن عبداللہ مبیّنہ طور پر تشدد کا نشانہ بنے اور ایک ارب ڈالر تاوان دے کر رہا ہوئے۔ متعب بن عبداللہ کے بعد کسی بھی شہزادے کو اس کا سربراہ نہیں بنایا گیا۔ نیشنل گارڈز کو اپنا وفادار رکھنے کے لیے محمد بن سلمان نے اہم قبائل کو بھی اس سے بے دخل کیا۔ مکہ، مدینہ اور حجاز کے دیگر علاقوں کے قبائل کو خصوصی طور پر نیشنل گارڈز سے نکال دیا گیا جو شاہ عبداللہ کے خاندان کے وفادار تصور ہوتے ہیں۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔