دنیا

امریکی وسط مدتی انتخابات: ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس کی اکثریت

سینیٹ میں حکمران جماعت ریپبلکنز کو اکثریت حاصل، حالیہ انتخابات کو ڈونلڈ ٹرمپ کا غیر اعلانیہ ریفرنڈم بھی کہا جارہا تھا۔

واشنگٹن: امریکا کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹ اراکینِ نے پارلیمنٹ(کانگریس) کے ایوانِ نمائندگان میں اکثریت حاصل کرلی جس کے نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2 سالہ دورِ صدارت میں بڑے دھچکے کا سامنا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے’سی این این‘ کے مطابق اب تک کے موصول ہونے والے غیر حتمی نتائج کے مطابق ایوانِ نمائندگان میں ریپبلکنز کی 199 اور ڈیموکریٹس کی 223 نشستیں ہیں جبکہ سینیٹ (ایوانِ بالا) میں ریپبلکنز کو 51 نشستوں پر برتری حاصل ہے اور ڈیموکریٹس کے پاس 43 نشستیں ہیں۔

اسی طرح 36 گورنروں کے عہدوں میں سے اب تک کے موصول ہو نے والے نتائج کے مطابق 26 عہدوں پر ریپبلکنز جبکہ 23 عہدوں پر ڈیموکریٹ سے تعلق رکھنے والے گورنر کامیاب ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ڈونلڈ ٹرمپ، امریکا کی صدارت کے لیے اخلاقی طور پر نااہل ہیں‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی نشریاتی اداروں نے نتائج کی تصدیق کی ہے جس میں ریپبلکن کو ایونِ بالا میں دوبارہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔

حالیہ انتخابات کے نتیجے میں امریکی عوام کے رجحانات واضح طور پر 2 مختلف سمت میں تقسیم ہوتے نظر آئے جبکہ اس سے قبل 2016 کے صدارتی انتخابات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن کو دونوں ایوانوں میں برتری حاصل تھی۔

خیال رہے ایوانِ زیریں میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اب ڈیموکریٹس اراکین کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی قانون سازی کو روک سکیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مالیاتی امور اور 2016 کے انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کی تحقیقات کر کے انہیں مشکل میں ڈال سکیں۔

مزید پڑھیں: میرا مواخذہ کیا گیا تو امریکی معیشت تباہ ہوجائے گی،ڈونلڈ ٹرمپ

مذکورہ وسط مدتی انتخابات کو ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے غیر اعلانیہ ریفرنڈم سے بھی تعبیر کیا جارہا تھا تاہم ابھی کچھ ریاستوں میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری اور ووٹوں کی گنتی کے باعث حتمی نتائج کا تاحال انتظار ہے۔

حالیہ انتخابات میں امریکی صدر کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ تقریباً سارا دن ہی وائٹ ہاؤس میں اہلِ خانہ اور دوستوں کے ہمراہ انتخابی نتائج دیکھتے رہے۔

ان انتخابات میں امریکی عوام نے بھرپور جوش و خروش سے حصہ لیا جس میں نیو یارک سے کیلیفیورنیا اور میسوری سے جارجیا تک پولنگ اسٹیشنز کے باہر عوام کی طویل قطاریں نظر آئیں۔

واضح رہے کہ امریکا میں ہر 4 سال بعد مڈٹرم انتخابات ہوتے ہیں جنہیں عام انتخابات بھی کہا جاتا ہے اور اس میں ایوانِ زیریں کی تمام 4 سو 35 نشستوں، سینیٹ کی 100 میں سے 35 نشستوں پر اراکین اور 36 ریاستوں کے گورنروں کا انتخاب کیا جاتا ہے، یہ انتخابات امریکی صدر کے عہدہ سنبھالنے کے 2 ہر سال بعدمنعقد ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات میں مداخلت: روس کے خفیہ ادارے اور دیگر پر پابندی

خیال رہے کہ انتخابی نتائج آنے کا سلسلہ ابھی جاری ہے تاہم کہا جارہا ہے کہ سینیٹ میں ریپبلکن اراکین کی کامیابی کے بعد ڈیموکریٹس کی جانب سے ایوانِ بالا میں’بلیو ویو‘ لانے کا خواب ٹوٹ چکا ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر حتمی نتائج آنے سے قبل ہی جیت کا اعلان کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کردیا۔

اپنی ٹوئٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ آج رات بہت بڑی کامیابی، آپ سب کا شکریہ۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس سے قبل 2002 میں 3 دہائیوں کے بعد پہلا موقع آیا تھا جب وائٹ ہاؤس پر حکمرانی کرنے والی جماعت نے سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کی تھی۔

حالیہ انتخابات کی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ بہت فخر سے معاشی اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے امریکی عوام کو مذکورہ انتخابات، ان کے اپنے ریفرنڈم کے طور پر دیکھنے کی دعوت دیتے رہے۔

امریکی صدر کی غیر متوقع کال

ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر نے حالیہ انتخابات میں ایوانِ نمائندگان میں اکثریت حاصل کرنے پر اپنے حریف اور ایوان میں ڈیموکریٹ پارٹی کی پارلیمانی لیڈر ’نینسی پولیسی‘ کو فون کر کے پر مبارکباد دی۔

اس حوالے سے نینسی پولیسی کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف ڈریو ہمل نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے مبارکباد دیتے ہوئے مل کر کام کرنے کی پیشکش کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل وائٹ ہاؤس ترجمان سارا سینڈرز سے جب پوچھا گیا کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات میں کامیابی پر نینسی پولیسی کو فون کریں گے جس طرح جارج ڈبلیو بش نے 2006 میں اپنے حریف کو کیا تھا؟

تو انہوں نے اس امکان کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا تھا کہ صدر انہیں کال کیوں کریں؟ وہ اس کے بجائے آئندہ 2 سالوں میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر توجہ دیں گے۔