پاکستان

نقیب اللہ قتل کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کا حکم

مقتول نقیب اللہ کے والد نے کیس کی سماعت کرنے والی انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر2 پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا تھا۔
|

کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کرنے والی جج پر نقیب اللہ کے والد کی عدم اعتماد کی درخواست سندھ ہائیکورٹ نے منظور کرتے ہوئے راو انوار کے خلاف کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

نقیب اللہ قتل کیس کی کسی دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی ایم شیخ نے سماعت کی۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے راؤ انوار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ بتائیں کہ کیا ایک ہی دن میں حکم نامے میں 2 دفعہ ترمیم کرنا مناسب تھا؟

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار نے ضمانت کیلئے درخواست دائر کردی

انہوں نے مزید کہا کہ پراسیکیوٹر نے بھی تسلیم کیا کہ اے ٹی سی جج کی آبزرویشن مناسب نہیں، آپ کے پاس اپنے موکل کا دفاع کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں۔

راؤ انوار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کی ضمانت کے خلاف بھی درخواست دائر ہوئی ہے اس پر نوٹس بھی جاری نہیں ہوا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں وہ بھی منگوا لوں گا فی الحال وہ معاملہ الگ رکھیں۔

خیال رہے کہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ اے ٹی سی کی جج نقیب اللہ قتل کیس میں جانبداری کا مظاہرہ کررہی ہیں، اے ٹی سی (ٹو) کی جج کو مقدمات کی مزید سماعت سے روک کر کیسز دوسری عدالت منتقل کیے جائیں۔

بعدِ ازاں عدالت عالیہ نے کسز کو انسداد دہشت گردی عدالت نمبر 3 میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

ضمانت کی منسوخی کی درخواست

علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ میں نقیب اللہ قتل کیس کے ملزمان سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راوُ انوار اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) قمر احمد کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست کی سماعت ہوئی۔

نقیب اللہ کے والد کی جانب سے بیرسٹرفیصل صدیقی نے راؤ انوار اور ڈی ایس پی قمر احمد کی ضمانت منسوخ کرنے کے لیے درخواست دائر کر رکھی ہے۔

درخواست میں عدالت کو بتایا گیا کہ عدالت نے ہمیں سنے بغیر اور شواہد نظر انداز کرتے ہوئے قمر احمد کی ضمانت منظور کی۔

یہ بھی پڑھیں: ’نقیب اللہ کا قتل راؤ انوار کے اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا‘

تاہم درخواست پر سماعت بغیر کسی کارروائی کے 26 نومبر تک ملتوی کردی گئی لیکن عدالت عالیہ نے راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر جمیل اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو نوٹس جاری کیے۔

خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 2 نے راوُ انوار اور سابق ڈی ایس پی قمر احمد شیخ کی ضمانت منظور کر رکھی ہے۔

ملزمان پر نقیب اللہ اور اس کے ساتھیوں کے اغوا، غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور قتل کے الزامات ہیں۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

مزید پڑھیں: ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم بعد ازاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھنے پر 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

بعد ازاں چیف جسٹس کے حکم پر راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں ڈال دیا گیا تھا، جبکہ انہیں اسلام آباد سے سخت سیکیورٹی میں کراچی منتقل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: پولیس کی جانب سے نامزد گواہ منحرف ہوگیا

اس کے بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں انہیں پیش کیا گیا تھا، جہاں انہیں ایک ماہ کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

بعد ازاں 21 اپریل کو 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم راؤ انوار کو سینٹرل جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا، تاہم عدالتی احکامات کے برخلاف ملیر کینٹ میں راؤ انوار کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قیل کیس کے ملزمان راؤ انوار اور قمر احمد کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا، جس کے خلاف نقیب اللہ کے والد نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی۔