کراچی میں منگھوپیر روڈ کے ساتھ قائم ایک مزدوری پیشہ علاقے میں سفید سفوف جیسے غبار نے ہر چیز کو ڈھانپ رکھا ہے۔ یہ کھڑکیوں سے چپک جاتا ہے، گلیوں میں پک رہے اور بک رہے کھانے میں مل جاتا ہے، اور گھروں اور دیگر عمارتوں کے اندر موجود فرنیچر اور دوسری اشیاء کو بھی ڈھک دیتا ہے۔
بجلی کی آریوں، کٹرز، گرائنڈرز اور سینڈنگ مشینوں کا ایک شور و غل ہے جو اس علاقے میں کسی کو بھی بہرا کر دینے کے لیے کافی ہے۔ یہاں موجود سینکڑوں ورکشاپس میں ماربل کے پتھروں کی پراسیسنگ جاری ہے جن سے اٹھنے والے باریک ذرات یہاں اڑتے رہتے ہیں اور ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
ماڈرن کالونی نامی محلے میں گورنمنٹ کریسنٹ گرامر بوائز سیکنڈری اسکول اس غبار اور شور کی زد پر ہے۔ اس کی میزیں اور کرسیاں پراسیس شدہ ماربل کے غبار کی ایک موٹی سطح سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ اسکول کے اساتذہ کے مطابق اگر باقاعدگی سے صفائی کی جائے تب بھی یہ 10 منٹ کے اندر واپس جمع ہوجاتا ہے۔
ایک سینئر استاد شکایت کرتے ہیں کہ طلبا اپنی پڑھائی پر دھیان دینے میں ناکام رہتے ہیں جبکہ ماربل کے غبار کی وجہ سے وہ کئی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب ایک ٹوٹھ پیسٹ کمپنی نے حال ہی میں ان کے میڈیکل چیک اپ کیے تو پایا گیا کہ ان میں سے زیادہ تر گلے کے انفیکشن میں مبتلا تھے۔
علاقے میں موجود کئی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے ورکشاپ مالکان سے درخواست کی ہے کہ وہ اسکول کے اوقات میں کام روک دیں۔ مگر اسکول کے قریب ہی ورکشاپ اور ماربل کی مصنوعات کا شوروم چلانے والے سید محمد تسلیم کہتے ہیں کہ طویل وقت کے وقفے اس کاروبار کو بے فائدہ بنا دیں گے۔
وہ اپنے کاروبار کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور اس سے جنم لینے والے صحت و صفائی کے معاملات سے واقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مگر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ یہ تو ہمارا ذریعہءِ آمدنی ہے۔‘
ماربل ایک مضبوط مگر فینسی پتھر ہے جو تعمیرات، فرنیچر، مجسموں اور سجاوٹ کی اشیا میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی کٹائی، گرائنڈنگ، فنشنگ اور پالشنگ کم آمدنی والے علاقوں مثلاً سیوریج ڈسپوزل پلانٹ، جسے گٹر باغیچہ بھی کہا جاتا ہے، اس کے جنوبی کنارے پر پرانا گولیمار کے علاقے یا پھر منگھوپیر روڈ پر شمال کی جانب چند کلومیٹر کے فاصلے پر پاک کالونی کے علاقے میں سینکڑوں ورکشاپس میں ہوتی ہے۔
یہ ورکشاپس، جو عموماً تنگ اور گنجان آباد گلیوں میں قائم رہائشی عمارتوں کی زمینی منزل میں ہوتی ہیں، مسلسل آواز اور غبار پیدا کرتی رہتی ہیں۔ اگر ان کے مالکان اور مقامی رہائشی کبھی اس چورے کو صاف کریں بھی تو اسے قریبی خالی پلاٹس میں، مقامی سڑکوں کے ساتھ، یا پھر قریب سے گزرتی اور خشک ہوتی لیاری ندی کے تلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مگر ہوا اس میں سے زیادہ تر کو واپس اسی علاقے میں لے آتی ہے۔
ماڈرن کالونی کے 34 سالہ رہائشی عمران سعید سانس لینے میں شدید دشواری کے باعث باقاعدگی سے دواؤں اور انہیلرز کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹروں کے مطابق میری بیماری ماربل کے غبار کی وجہ سے ہے۔‘
سعید کے 4 سالہ بیٹے اور 5 سالہ بیٹی کو ناک اور آنکھوں کی الرجی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ بھی گزشتہ چند سالوں سے سانس پھولنے کی شکایت کر رہی ہیں لیکن جب وہ دوسرے شہر میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لیے جاتی ہیں تو انہیں وہاں سانس میں کوئی شکایت نہیں ہوتی۔
ماڈرن کالونی کے ایک اور رہائشی طلحہٰ سراج کہتے ہیں کہ ان کے 16 ماہ کے بیٹے کو اکثر نیبولائز کروانا پڑتا ہے ورنہ اس کا سانس پھنسنے لگتا ہے۔ ماربل پراسیسنگ کے علاقوں میں اس طرح کی شکایات عام ہیں۔ ان لوگوں میں بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جو ورکشاپس میں کام کرتے ہیں۔ ماربل پراسیسنگ کی ایک ورکشاپ کے پروپرائیٹر کہتے ہیں کہ ’میرے پورے گھرانے کو سانس پھولنے کی شکایت ہے۔‘