پاکستان

آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف احتجاج، ہنگامہ آرائی کے الزام میں 1100 افراد گرفتار

ان افراد پر پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور لوٹ مار کا الزام ہے، رپورٹ
|

لاہور: پنجاب پولیس نے آسیہ بی بی کی بریت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں اب تک 11 سو مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف 130 مقدمات درج کرلیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی ایجنسیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے احتجاج میں پرتشدد کارروائیوں اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے اور اس کی تعمیلی رپورٹ آج (پیر) کی شام تک جمع کرائی جائے۔

وزارت داخلہ کی جانب جاری ہدایت میں کہا گیا تھا کہ علما نے تشدد میں ملوث عناصر سے لاتعلقی کی تھی، لہٰذا پی ٹی اے اور نادرا کے تعاون سے ان واقعات کی ویڈیو کلپس اور تصاویر کو استعمال کرتے ہوئے فسادات میں ملوث افراد کی شناخت کی جائے۔

مزید پڑھیں: ’دھرنوں میں آئین و قانون کی توہین کی گئی، بغاوت کو نظرانداز نہیں کرسکتے‘

اس حوالے سے پنجاب پولیس کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ 1960 کے پبلک آرڈر آڈیننس کی دفعہ 16 کی خلاف ورزی کرنے پر 800 افراد کو گرفتار کیا گیا اور دیگر 300 افراد کو پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے اور صوبے کے مختلف علاقوں میں سرکاری و نجی املاک اور گاڑیوں کو نقصان پہنچانے پر درج کی گئی ایف آئی آرز کے تحت گرفتار کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ مظاہرین نے صوبے کے مختلف علاقوں میں 63 پولیس افسران کو زخمی کیا، جنہیں قریبی ہسپتالوں میں طبی امداد کے لیے منتقل کیا گیا، ان اہلکاروں میں سے 58 کو ڈسچارج کردیا گیا لیکن 5 پولیس اہلکاروں کو شدید زخم آئے اور وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 300 مشتبہ افراد کو پولیس کے پاس موجود مختلف فوٹیج سے شناخت کیا گیا جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ ایف آئی آرز اور گرفتاریوں میں اضافہ ہوگا کیونکہ پولیس کی جانب سے ایسے عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر گرفتاریاں راولپنڈی، فیصل آباد اور گجرانوالہ ڈویژن سے ہوئیں جبکہ اسلام آباد پولیس نے 25 افراد کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کیں۔

دوسری جانب وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے اس تمام صورتحال کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کی اور صوبوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کو تجویز دیں کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف شکایات درج کرائیں، ویڈیوز شیئرز کریں اور فسادات میں ملوث افراد کی نشاندہی میں حکومت کی مدد کریں۔

وزارت داخلہ کی جانب سے تمام صوبوں سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے واٹس ایپ نمبر عوام کو دیں تاکہ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے متعلقہ محکموں کو معلومات اور ویڈیوز فراہم کرنے میں مدد مل سکے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر نے خادم حسین رضوی کا اکاؤنٹ بند کردیا

علاوہ ازیں قصور میں پھولنگر پولیس نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 348 مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کرلیے، جن میں سے 48 کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 سمیت مختلف دفعات میں نامزد کیا گیا۔

ادھر گجرانوالہ پولیس نے 9 معلوم اور 2500 نامعلوم افراد کے خلاف شہریوں کو دھمکانے، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور سڑکوں پر عوام کو لوٹنے کے الزام میں مقدمات درج کیے گئے۔

اس کے علاوہ صوبہ سندھ کے شہر نوابشاہ میں پولیس نے ہوائی فائرنگ اور زبردستی دکانے بند کرانے کے الزام میں ٹی ایل پی کے 2 کارکنان کو گرفتار کرلیا جبکہ اسی طرح کے کچھ مقدمات کراچی میں بھی درج کیے گئے۔