مطالعے کا زمانہ واپس لانا ہوگا
جہاں تک مجھے یاد ہے، 15 برس قبل تک کتابیں زندگی کا ایک نہایت اہم جزو ہوا کرتی تھیں۔ آپ اسکول کے طالب علموں کو ستونوں سے ٹیک لگائے ایک ہاتھ میں ہیری پوٹر کی کتاب اور دوسرے ہاتھ میں لنچ دیکھتے تھے۔ گھر پر بڑی عمر کے افراد شام کو ناولوں یا رسالوں میں غرق ہوتے یا رات کے کھانے کے بعد باآواز بلند غالب یا اقبال کے اشعار پڑھتے۔
امریکا کے پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 1978ء سے لے کر اب تک مطالعے کا یہ رجحان کم ہوتا ہی دیکھا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اسکول کے وہ طلبہ جنہیں پہلی جماعت میں مطالعہ کی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے، وہ بھی چوتھی کلاس سے پہلے ٹھیک طرح سے تحریر کو پڑھ نہیں پاتے۔ افسوس کے ساتھ مطالعے کی کمی دماغی خلیوں پر بدترین اثرات، ہم گدازی، خود اعتمادی اور جذباتی ذہانت میں کمی کا باعث بنتی ہے، جبکہ والدین اور بچوں کا خیال رکھنے والے دیگر افراد اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں۔
بطور ایک ’او‘ لیول ٹیچر، میں اس بات پر زور دوں گی کہ مطالعے کے عمل میں ضروری نہیں صرف اور صرف کتابیں ہی شامل ہوں۔ لیکن کم از کم اخبار یا کالم پڑھنے کے لیے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی جائے، چونکہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا اس لیے اتنا مطالعہ بھی ان کے لیے کافی ہوگا۔ بہتر انداز میں اور مستقل مزاجی کے ساتھ مطالعہ آپ کو موجودہ اور ماضی کے حالات سے واقف رکھتا ہے، ساتھ ہی ثقافتی آگاہی میں اضافہ اور خود اظہاری کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔