پاکستان

’ قتل و غارت سے بچاؤ کے لیے مفاہمت خطرناک ہے‘

ریاست کو قانون اور آئین نافذ کرکے ریاستی اداروں کا ساتھ دینا چاہیے، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ جانی نقصان سے بچاؤ کے لیے مذاکرات کرنا غیر ریاستی عوامل کو ایک خطرناک پیغام بھیجتا ہے۔

شیریں مزاری نے سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ مسیح کی بریت کے فیصلے، اس کے خلاف مظاہرے اور اس انتشار پر حکومت کے ساتھ مظاہرین کے معاہدے کے ایک دن بعد ان خیالات کا اظہار کیا۔

وفاقی وزیر نے سماجی روابط کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں کہا کہ ’ تاریخ گواہ ہے مفاہمت کبھی کام نہیں آتی‘۔

انہوں نے اپنی بات میں 1938 میں کیے گئے میونخ معاہدے کا حوالہ بھی دیا جس میں برطانیہ اور فرانس نے نازی جرمنی کو بتایا تھا کہ وہ چیکو سلوواکیہ سے انضمام پر اعتراض نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں : حکومت سے معاہدہ طے پاگیا، مظاہرین کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان

خیال رہے کہ میونخ معاہدہ 1934 سے 1939 کے درمیان نازیوں سے صلح کے لیے کیے گئے معاہدوں میں سے ایک تھا۔

مولوٹو - ریبین ٹروپ معاہدہ 23 اگست 1939 کو اڈولف ہٹلر اور سوویت یونین جوزف اسٹالن کے درمیان ہوا تھا جس میں دونوں ممالک کے درمیان پولینڈ سے متعلق معاہدہ بھی ہوا تھا۔

جس کے بعد یکم ستمبر 1939 کو ہٹلر نے پولینڈ پر دھاوا بول دیا جس نے جنگ عظیم دوئم کے آغاز کی بنیاد ڈالی تھی۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ’ حالتِ جنگ کا شکار یورپ میں قتل و غارت سے بچنے کے لیے کی گئی مفاہمت کا نتیجہ مزید جانی نقصان اور تباہی کے نتیجے میں جنگِ عظیم دوئم کی صورت میں نکلا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ قتل و غارت سے بچنے کے لیے صلح کا عمل غیرریاستی عوامل کو ایک خطرناک پیغام بھیجتے ہوئے جمہوری اور پُرامن احتجاج کے تصور کو کمزور کردیتا ہے ‘۔

یہ بھی پڑھیں : آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے اپیل دائر

شیریں مزاری نے کہا کہ ’ ریاست کو قانون ، آئین نافذ کرکے ریاستی اداروں کا ساتھ دینا چاہیے خاص طور پر اس وقت جب انہیں نشانہ بنایا جائے ‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ شکوک و شبہات اور ناامیدی کےباوجود ‘ وزیراعظم عمران خان پر اعتماد تھا کہ وہ آئین، قانون اور ریاستی اداروں کے دفاع سے متعلق وعدوں کو پورا کریں گے۔

یاد رہے کہ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ آنے کےبعد سے ملک بھر میں مظاہرے جاری تھے جن کا اختتام 2 نومبر کو حکومت سے معاہدے کی صورت میں ہوا تھا۔

ٹوئٹر نے خادم حسین رضوی کا اکاؤنٹ بند کرنے سے انکار دیا

معروف سیاسی مبصر اور مصنف عائشہ صدیقہ نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق سے پوچھا کہ کیا ان کی وزارت نے فیس بک اور ٹوئٹرسے تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کا کہا کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر عدالتی فیصلے کے خلاف مظاہرے میں کرادار ادا کیا تھا۔

مزید پڑھیں : 'ریاست کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کریں'

شیریں مزاری نے جواب دیا کہ متعلقہ وزیر نے جمعہ کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے ) کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کا کہا تھا میں حیران ہوں کہ یہ اب تک بند نہیں ہوئے ‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ وزیر اطلاعات نے بتایا کہ انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ ٹوئٹر اس حوالے سے ہماری درخواست قبول نہیں کررہا‘۔