پاکستان، چین عالمی و علاقائی سطح پر تعاون بڑھانے پر متفق
پاکستان اور چین نے دونوں ممالک کی دوستی کو مزید مستحکم کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی معاملات میں تعاون کو بڑھانے اور دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہ چین کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق دونوں ممالک 2005 میں مشترکہ طورپردستخط کردہ دوستی کے معاہدے کے رہنما اصولوں پر کاربند ہیں اور سیاسی تعلقات اور اسٹریٹجک بات چیت کو مضبوط بنانے کے لیے پُر عزم ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور چین اچھے ہمسائے ہونے کے ساتھ ساتھ قریبی دوست اور قابلِ بھروسہ شراکت دار ہیں، اور دونوں ممالک خطے میں اور اس سے باہر امن و استحکام اور ترقی کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
چین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ان کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے، اور چین اپنے اہم مفادات میں پاکستان کی حمایت کی تائید کرتا ہے، اور پاکستان کو اس کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کی حفاظت کے لیے حمایت کا یقین دلاتا ہے۔
مزید پڑھیں: وائٹ کالر کرائم سے نمٹنے کے لیے چین کی مدد درکار ہے، وزیرِاعظم
پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ پاک چین دوستی اس کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین عنصر ہے، اور یہ دوستی قومی اتفاقِ رائے اور پاکستانی قوم کی خواہش کی ترجمانی کرتی ہے، اور معاشی ترقی میں مدد کرنے پر پاکستان چین کی حمایت کا بے حد مشکور ہے۔
دونوں ممالک نے اعلیٰ سطح کے وفود کے دوروں اور ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ دیگر بین الاقوامی کانفرنسز کے دوران دوطرفہ ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔
ادھر چین نے پاکستانی پارلیمنٹ میں پاک چین دوستی گروپ کے قیام کو خوش آئند قرار دیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے چینی صدر ژی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے (بی آر آئی) کی تعریف کی اور کہا کہ اس منصوبے میں عالمی تعاون کے تناظر میں تمام ممالک کے لیے صرف فائدہ ہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے مکمل تعاون کریں گے،چین
دونوں ممالک نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے اتبدائی مراحل کا جائزہ لیا اور اس منصوبے پر اب تک کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ اس کو وقت پر مکمل کرنے کا اعادہ بھی کیا۔
دونوں ممالک نے تعاون کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کو ٹاسک دے دیا جس کے لیے جے سی سی کا آئندہ اجلاس رواں برس کے اختتام سے قبل بیجنگ میں منعقد ہوگا۔
سی پیک کے تحت تعلقات کو مزید بہتر کرنے کے لیے دونوں ممالک نے معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے کا بھی اعلان کیا ہے جو پاکستان میں لوگوں کی بہبود سے متعلق منصوبوں میں تعاون کرے گا۔
مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں ممالک نے گوادر کی بندگاہ ایک اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر کام تیز کرنے اور معاون منصوبوں کو جلد مکمل کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: غربت،کرپشن کے خاتمے کیلئے چین کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں،وزیراعظم
دونوں ممالک نے سی پیک اور اس سے متعلق منصوبوں سے متعلق منفی پروپیگنڈے کو بھی مسترد کردیا، اور اس منصوبے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو مربوط بنانے اور ان میں وسعت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے مابین گزشتہ معاہدے کے مطابق ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی میں تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
دونوں ممالک نے سمندی امور سے متعلق مسائل، سائنس اور ٹیکنالوجی، اسپیس ٹینکالوجی اور ماحولیاتی اور زراعت سے متعلق تعاون کر بڑھانے پر زور دیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان نے چین کے غربت کے خاتمے کے ماڈل کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اس نے 70 کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک نے لوگوں کے لوگوں سے رابطے اور ثقافتی تعاون کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا ہے جبکہ دونوں مملک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرنے کے لیے ویزا پالیسی کو مزید بہتر کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
اسی طرح دونوں ممالک نے 2019 کو پاک چین دوستی کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں دونوں ممالک کے ایک دوسرے سے مشابہت رکھنے والے شہروں اور صوبوں میں تعلقات کو استوار کیا جائے گا۔
پاکستان اور چین نے ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھانے، دفاعی امور سے متعلق اعلیٰ حکام کے دوروں، دفاع و سیکیورٹی سے متعلق مشاورتی طریقہ کار کو بروئے کار لانے، فوجی مشقوں، فوجی آلات اور ٹیکنالوجی میں تعاون پر بھی اتفاق کیا۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل کی دہشت گردی سے متعلق قراردادوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں اس لیے تمام ممالک یو این پابندیوں کے معاملات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے باز رہیں۔
دونوں ممالک نے اتفاق کیا کہ عالمی دہشت گردی سے متعلق جامع کنونشن کا اتفاق رائے سے مسودہ تیار کیا جانا چاہیے جب کہ مقاصد کے حصول کے لیے قانون کی حکمرانی اور طویل المدتی جامع رولز بنائے جائیں۔