دنیا

بھارت میں آدم خور شیرنی کو قتل کردیا گیا، نیا تنازع کھڑا

ایک درجن سے زائد لوگوں کی جان لینے والی آدم خور شیرنی کو طویل جدوجہد کے بعد بالآخر ہلاک کردیا گیا۔

بھارت میں ایک درجن سے زائد لوگوں کی جان لینے والی آدم خور شیرنی کو طویل جدوجہد کے بعد بالآخر ہلاک کردیا گیا جس کے بعد ایک نئے تنازع نے جنم لے لیا ہے۔

بھارت کے وسط میں واقع جنگل میں 'ٹی ون' کے نام سے مشہور شیرنی کی ایک عرصے سے تلاش جاری تھی جو ایک درجن سے زائد افراد کی جان لے چکی تھی۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فضائی حملہ، خاندان کا آخری زخمی بچہ بھی جاں بحق

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شیرنی کے شکار کے لیے خصوصی ماہرین کا دستہ تیار کیا گیا تھا جو 150کلومیٹر سے زائد پر محیط جنگل میں اسے تلاش کر رہا تھا اور اس سلسلے میں خصوصی کیمرے بھی نصب کیے گئے لیکن آدم خور شیرنی کو مارنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہو سکی تھی۔

150 سے زائد افراد پر مشتمل اس ٹیم کی مدد کے لیے خصوصی طور پر ہاتھیوں کی مدد لی گئی تھی جن پر شارپ شوٹر سوار تھے۔

تاہم جمعہ کی رات ان شارپ شوٹرز کی کوششیں رنگ لے آئیں جب ریاست مہاراشٹر کے جنگلات میں اس شیرنی کو ہلاک کردیا گیا جس کے 10ماہ کے دو بچے ہیں۔

ضرور پڑھیں: جب ایک کتے نے اپنے مالک کو گولی ماردی

جون 2016 سے اب تک 13 افراد کو ہلاک کرنے والی اس شیرنی کو مارنے کا حکم رواں سال ستمبر میں عدالت نے دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اگر بے ہوشی کی دوا اثر نہ کرے تو اس آدم خور جانور کو مار دیا جائے لیکن اس عدالتی فیصلے کے خلاف کئی اپیلیں کی گئی تھیں۔

تنازع کیوں کھڑا ہوا؟

البتہ جنگلی حیات کے شوقین افراد میں ’اونی‘ کے نام سے مشہور شیرنی کے مارے کے بعد ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا اور بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق شیرنی کو بے ہوش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور براہ راست گولی مار دی گئی۔

ٹائمز آف انڈیا سمیت دیگر میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق شیرنی کو رات کے وقت ہلاک کیا گیا اور رات میں بے ہوشی کی دوا دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔

رپورٹس کے مطابق بھارت کے مشہور شکاری نواب شفاعت علی خان کو اس مہم کی قیادت کرنی تھی لیکن وہ جمعہ کی رات موجود نہیں تھے اور ان کے بیٹے اصغر علی خان نے شیرنی کو گولی ماری۔

محکمہ جنگلات اور شکاریوں نے شیرنی کو مارے جانے کے حوالے سے تفصیلات بتانے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: شعیب ملک، ثانیہ مرزا کے بیٹے کی سوشل میڈیا پر پہلی جھلک

جنگلات کے تحفظ کے سربراہ اے کے مشرا نے اخبار انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ جنگلات کے ملازمین رات 11 بجے شیرنی کو بے ہوشی کی دوا دینے میں کامیاب رہے لیکن وہ دوبارہ ہوش میں آ گئی اور اصغر کو اپنے دفاع میں گولی چلانی پڑی۔

تاہم شیرنی کی موت صرف ایک ہی گولی سے ہو گئی جس سے اس مہم پر شکوک ظاہر کیے جا رہے ہیں جبکہ دیگر رپورٹس سے محکمہ جنگلات کے افسر کی بات کی نفی ہوتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ شیرنی کو بے ہوشی کی دوا دی ہی نہیں گئی اور قتل کے ارادے سے ہی مہم سر انجام دی گئی کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے برخلاف موقع پر کوئی ویٹرنری سرجن موجود ہی نہیں تھا۔

ایک ویٹرنری ڈاکٹر اور جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم جیرل بینیٹ نے اسے بہیمانہ قتل قرار دیتے ہوئے اس اقدام کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک شکاری نے خون کی پیاس بجھانے کے لیے ’اونی‘ کا قتل کیا۔

شیرنی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ناگپور کے چڑیا گھر میں منتقل کردیا گیا ہے۔

یہ بھی دیکھیں: بیٹیوں کی شادی کراؤ یا اپنی زمین کو بھول جاؤ

تاہم اونی کی موت پر تنازع کے باوجود جنگل کے اطراف کے رہائشی گاؤں والوں نے شیرنی کی موت پر جشن منایا جن کے کئی ساتھی اس آدم خور جانور کا نشانہ بن چکے تھے۔

'ٹی ون' نے پہلی مرتبہ جون 2016 میں ایک خاتون کو اپنا شکار بنایا تھا اور اس کے بعد سے وہ مرد چرواہوں کو ہی مسلسل نشانہ بناتی رہی۔

بھارت نے ملک میں چیتوں کی تعداد میں اضافے کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز کیا تھا جس کی بدولت 2014 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق چیتوں کی تعداد 1500 سے بڑھ کر 2200 ہو گئی تھی۔