نقطہ نظر

کراچی جو اِک شہر تھا (ساتواں حصہ)

’ابے یہ صرف تیرا نہیں، پوری قوم کامسئلہ ہے۔ پورے سندھ میں نقل ہو رہی ہے اور ہم کراچی والےاپنی ایمانداری میں رہ جاتےہیں۔‘

یہ اس سیریز کا ساتواں بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں اور چھٹا حصہ پڑھیں۔


ہمارے زمانے میں طالب علمی کے 5 ادوار ہوا کرتے تھے۔ پرائمری، لوئر سیکنڈری، میٹرک، انٹر اور ڈگری۔ 1981ء میں میرا لوئر سیکنڈری کا دور مکمل ہوا اور ہماری کلاس 9ویں جماعت میں آگئی۔ پچھلے دور اور اس دور میں بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلی سے 8ویں تک تو ہم اپنے سارے امتحان اپنے ہی اسکول میں اپنے ہی اساتذہ کی زیرِ نگرانی دیتے آئے تھے، لیکن اب صورتحال یوں تشویش ناک تھی کہ ہمارے امتحان اب سیکنڈری بورڈ کے تحت ہونے تھے اور یہ ہمیں اپنے اسکول میں نہیں بلکہ کسی اور اسکول میں جاکر دینے تھے۔ کہاں؟ جہاں ’سینٹر‘ پڑے گا اور یہ لفظ ’سینٹر‘ ہر طالبِ علم کے لیے خاصا خوفناک ہوتا تھا، خصوصاً پڑھنے میں کمزور اور نقل چور لڑکوں کے لیے۔

اللہ جانے کہاں سینٹر پڑے گا؟ کتنی سختی ہوگی؟ پیپر کتنا مشکل آئے گا؟ ’پھرّے‘ لے جانے اور نقل مارنے کا موقع ملے گا یا نہیں؟ پنجاب میں جس چیز کو ’بُوٹی‘ کہتے ہیں کراچی میں اس کے لیے ’پھرّے‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔

ہمارا شمار پڑھاکُو اور تیز لڑکوں میں ہوتا تھا۔ میری ہر سبجیکٹ کی کاپیوں میں نوٹس اور سوالات وجوابات بہت صفائی اور عمدگی کے ساتھ لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ جیسے جیسے 9ویں جماعت کے امتحان قریب آتے گئے، میری کاپیاں اور میرے نوٹس میرے ہم جماعت لڑکوں کے لیے اہم ہوتے چلے گئے۔ میری کاپیاں میرے اکثر کلاس فیلو مجھ سے اپنا کام مکمل کرنے کے بہانے لے کرجاتے تھے، لیکن وہ اسے لکھ کر کاپی کرنے کے بجائے چپکے سے اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں کروا رہے تھے، ’مائیکرو فوٹو اسٹیٹ‘۔

کوچنگ سینٹرز کے تیار کردہ گیس پیپرز کی مدد سے منتخب سوالات کے جوابات کی مائیکرو فوٹو اسٹیٹ کاپیاں، جنہیں لڑکے اپنی آستینوں اور جرابوں میں چھپا کر کمرہ امتحان میں لے جاتے تھے اور پیپر دیتے وقت ان پر سے نقل مارتے تھے۔ یعنی میری کاپیاں امتحان میں نقل کرنے کے لیے ’پھرے‘ بنانے میں استعمال ہو رہی تھیں اور مجھے اس کی کانوں کان خبر نہیں تھی۔

آصف اسکول—تصویر عبیداللہ کیہر

پھر ایک دن یہ بھی ہوا کہ 9ویں جماعت میں سال کے آخر میں جب بورڈ کے امتحان قریب تھے تو اچانک میری سال بھر کی محنت سے تیار کردہ، ڈایاگرام سے مزین کاپیاں چوری ہوگئیں۔ میرے تو سر پر پہاڑ ہی گر پڑا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں نے ایک 2 دن تو کلاس میں خوب واویلا کیا اور رونا دھونا مچایا، لیکن چور نہ ملا تو پھر صبر کے ساتھ اپنے چند کلاس فیلوز کی مدد سے وہ کاپیاں نئے سرے سے تیار کرنے میں جت گیا۔ امتحان سے چند دن قبل میں اپنے سارے نوٹس نئے سرے سے مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس وقت مجھے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ امتحانات کے بالکل قریب کاپیاں چوری ہونے کا یہ سانحہ میرے لیے کس قدر فائدہ مند ثابت ہونا تھا کیونکہ نوٹس مکمل کرنے کے دوران میری سارے مضامین کی خودبخود بھرپور تیاری ہوچکی تھی۔

ہمارے اسکول کا امتحانی ’سینٹر‘ ملیر کے مشہور جامعہ ملیہ پائلٹ سیکنڈری اسکول میں لگا۔ پہلا پیپر بائیولوجی کا تھا۔ امتحان کا وقت صبح 9 بجے سے دوپہر 12 بجے تک 3 گھنٹے کا تھا۔ سب کے دل بُری طرح دھڑک رہے تھے اور زبانیں جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کے ورد میں مشغول تھیں۔ پیپر وقتِ مقررہ پر شروع ہوگیا۔ امتحانی پرچہ ہاتھ میں آتے ہی سب کی سٹی گم ہوگئی۔ میں نے پرچے کا جائزہ لیا تو خوشی ہوئی کہ اس میں سے تقریباً سارے سوال مجھے آتے تھے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

20 سوال تو ’خالی جگہوں‘ والے یعنی معروضی یا MCQs تھے جن میں سے 18 کا جواب مجھے معلوم تھا۔ میں نے فوراً ہی اپنا پرچہ حل کرنا شروع کردیا۔ میں جس وقت تیزی سے اپنی کاپی میں لکھ رہا تھا اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ کمرہ امتحان میں موجود 2 نگراں اساتذہ میں سے ایک نوجوان سا ٹیچر بار بار میرے قریب آتا اور غور سے میری کاپی کو دیکھتا۔ میں چونکہ نقل نہیں کر رہا تھا اس لیے بالکل پریشان نہیں ہوا اور بے فکری سے لکھتا رہا۔

کچھ دیر بعد وہ استاد اچانک میرے پاس آیا اور مجھے ایک کتاب ہاتھ میں دے کر سرگوشی میں بولا، ’یہ بائیولوجی کی شرح ہے۔ یہ لے کر ٹوائلٹ کے بہانے جاؤ اور اس میں سے سارے سوالوں کے جواب نکال کر لے آؤ۔ خود اپنا پرچہ بھی حل کرو اور مجھے بھی دو تاکہ میں دوسروں کو نقل کرواؤں۔ جلدی سے جاؤ‘۔

’لیکن کیوں سر؟‘ میں اچنبھے سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔

’ابے کیسا لڑکا ہے تُو‘۔ وہ جھلا کر بولا۔ ’میں تمہیں خود نقل کی اجازت دے رہا ہوں اور تم ہو کہ آگے سے سوال کر رہے ہو‘۔

’لیکن سر مجھے تو سارے سوال آتے ہیں، میں کیوں نقل کروں؟‘ میں بولا۔

’تو پھر دوسروں کو نقل کرواؤ‘۔ اس نے کلاس کے باقی لڑکوں کی طرف اشارہ کیا جو مجھے ملتجیانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

’یہ نہیں ہوسکتا سر‘۔ میں ’سماج کی دیوار‘ بن کر کھڑا ہوگیا۔ ’میں تو صرف اپنا پیپر کروں گا۔ کسی کو نقل نہیں کراؤں گا‘۔

’ابے یہ صرف تیرا نہیں، پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ پورے سندھ میں نقل ہو رہی ہے۔ سب نقل مار کر پاس ہوجاتے ہیں اور ہم کراچی والے اپنی ایمانداری میں رہ جاتے ہیں۔ سمجھا کرو بات کو‘۔

’سوری سر‘۔ میں بولا۔ ’میں صرف اپنا پرچہ حل کروں گا‘۔

جامعہ ملیہ پائلٹ سیکنڈری اسکول—تصویر عبیداللہ کیہر

ٹیچر نے مجھے غصے سے گھورا، پھر مجھ سے پیچھے کسی اور لڑکے کی طرف چلا گیا۔ کچھ دیر کھسر پھسر کی آوازیں آئیں اور پھر ایک لڑکا اپنی شرٹ کے اندر بائیولوجی کی شرح چھپاتا ہوا باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد واپس آیا تو ٹیچر تیزی سے اس کی طرف لپکا اور پھر میرے ارد گرد تیز تیز سرگوشیاں ہونے لگیں۔ علم و ادب کا شہر کراچی اپنے نئے روپ کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ میں نے تو اسی انداز میں اپنے سارے پرچے دیے اور بورڈ کا امتحان A گریڈ میں پاس کیا۔

کراچی میں میرے لڑکپن کا اولین سیاسی تجربہ تو قائدآباد میں پیپلز پارٹی کے امیدوار حفیظ پیرزادہ کے انتخابی جلسے تھے، یا پھر 8ویں جماعت کا وہ احتجاجی جلوس تھا کہ جس میں ہم نے خانہ کعبہ پر حملے کے خلاف ڈنڈا بردار مظاہرہ کیا تھا۔ پھر اس کے بعد وقتاً فوقتاً مختلف مکتبِ فکر کے لوگ میرے قریب آئے، کچھ عرصہ ساتھ چلے اور پھر رفتہ رفتہ میں ان کے لیے غیر اہم ہوگیا۔

میرے کلاس فیلو ابرار کا بھائی ریاض (ریاض الدین نوری) انجمنِ طلبہ اسلام (اے ٹی آئی) کراچی کا صدر تھا۔ وہ اکثر ہمارے اسکول آتا تھا۔ اچھا خوش اخلاق لڑکا تھا۔ اس نے مجھ سے دوستی کرلی اور میں اس کے ساتھ انجمن طلبہ اسلام کے کئی پروگراموں میں شریک ہوا، لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکا اور میں پھر اپنی پڑھائی میں منہمک ہوگیا۔

اسکول میں ہر سال طلبہ یونین کے الیکشن، اسپورٹس ویک اور سالانہ فنکشن ہوتے تھے، جن کا سب طلبہ کو شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اسکول یونین کا ایک صدر، ایک جنرل سیکریٹری اور ہر کلاس سے ایک ایک ممبر ہوتا تھا۔ صدر اور جنرل سیکریٹری عام طور سے 10ویں جماعت ہی سے منتخب ہوتے تھے۔ میں نے اس روایت کو توڑا تھا اور 9ویں جماعت میں ہی جنرل سیکریٹری منتخب ہوگیا تھا۔

میں کھیلوں کا تو زیادہ شوقین کبھی نہیں رہا، البتہ سالانہ فنکشن میں ہونے والے اسٹیج ڈراموں میں اداکاری اور ڈرامے لکھنے کا مجھے بہت شوق تھا۔ 9ویں جماعت کے سالانہ فنکشن میں، مَیں نے ایک مزاحیہ اسٹیج ڈرامہ لکھا جس میں مرکزی کردار ’دادا جان‘ کا تھا۔ دادا جان کے کردار کے لیے میں نے اپنے سب سے قریبی دوست کو منتخب کیا۔ اس نے بھی اسٹیج پر اپنے کردار کو خوب نبھایا۔ اس کی مزاحیہ حرکتوں سے اسکول کے بچے خوب لوٹ پوٹ ہوئے اور وہ پورے اسکول میں دادا جان کے لقب سے معروف ہوگیا۔

اس مزاحیہ شہرت کا اس نے یہ فائدہ اٹھایا کہ اگلے سال کی اسکول یونین کے الیکشن میں میرے ہی مقابلے پر صدر کے انتخاب کے لیے کھڑا ہوگیا۔ میں اس کی اس حرکت پر سناٹے میں آگیا۔ وہ تھا تو میرا سب سے قریبی دوست لیکن اسے جیسے ہی یہ خوش فہمی ہوئی کہ وہ میرے مقابلے میں جیت سکتا ہے، تو وہ بغیر کسی مروت کے خم ٹھونک کر میرے سامنے آگیا، لیکن پھر بُری طرح ہارا۔ اسکول یونین کی صدارت کے لیے طلبہ نے میرا ہی انتخاب کیا، لیکن اس معمولی سے انتخابی مرحلے نے مجھے آئندہ زندگی میں آنے والے تلخ حقائق کی پہلی جھلک اچھی طرح دکھا دی۔

1985ء میں دوستوں کے ساتھ—عبیداللہ کیہر

10ویں جماعت میں مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ ٹیوشن کی ضرورت پڑی۔ ہم ’پیلے اسکول‘ کے طالب علم تھے۔ صرف سرکاری اسکول کے اساتذہ سے پڑھ کر بورڈ کا مشکل امتحان دینا خاصا دشوار محسوس ہوتا تھا اس لیے میں نے اپنے ہی محلے میں 100 روپیہ ماہانہ فیس والے ایک کوچنگ سینٹر میں داخلہ لے لیا۔ اس سینٹر میں پڑھنے والے زیادہ تر لڑکے اردو بولنے والے مہاجر گھرانوں کے تھے، چند کچھی اور میمن لڑکے بھی تھے، جبکہ سندھی میں واحد تھا، لیکن ابھی ہم ان تعصبات سے واقف نہیں ہوئے تھے۔

ایک دن سینٹر کے ٹیچر نے ہمارا ریاضی کا امتحان لیا۔ بہت سخت پرچہ بنایا۔ لڑکوں کے تو پسینے نکل آئے۔ اکثر فیل ہوئے، کچھ نے معمولی نمبر لیے، ایک مہاجر بچے نے 85 نمبر لے لیے۔ میرے 100 میں سے 100 آئے۔ ٹیچر صاحب بہت خوش ہوئے، مجھے شاباش بھی دی، لیکن سیکنڈ آنے والے لڑکے کی چھڑی سے خوب پٹائی کی۔ وہ اس کے ہاتھوں پر چھڑیاں مارتے جاتے تھے اور بار بار اس سے کہتے جا رہے تھے، ’ابے تم نے کیوں کم نمبر لیے؟ سندھی بچے سے کم نمبر کیوں لائے؟ تم سے مجھے یہ امید نہیں تھی‘۔ وہ ٹیچر خود بھی مہاجر تھے۔

بالآخر میٹرک کے امتحان بھی ہوگئے۔ میں اور میرا کلاس فیلو ندیم ’اے‘ گریڈ لے کر پاس ہوئے، محمود نے ’بی‘ گریڈ لیا، باقی سارے ’سی‘ اور ’ڈی‘ گریڈ لے کر نہ جانے کہاں تتر بتر ہوگئے۔ میں نے ریاضی کے امتحان میں 100 میں سے 99 نمبر لیے تھے، جس پر اسکول کے اساتذہ بہت خوش تھے۔ میرے اسکول سے فارغ ہونے کے بعد اگلے سالانہ فنکشن میں مجھے خصوصی طور پر بلوایا گیا اور انعام دیا گیا۔ میٹرک کے رزلٹ آنے اور کالج میں داخلے کے درمیان کئی مہینوں کا وقفہ تھا اور یہ ہماری عیاشی کے دن تھے۔ کھیلیں کودیں، گھومیں پھریں، جو چاہیں کریں۔

میٹرک کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ میں چونکہ اب بڑا ہوگیا ہوں، اس لیے مجھے بچوں کی کتابیں اور رسالے پڑھنا چھوڑ دینا چاہیے۔ میرے پاس ماہنامہ ہمدرد نونہال، تعلیم و تربیت، ہونہار اور دیگر رسالوں اور بچوں کے ناولوں کا ایک انبار جمع تھا۔ میں ان سے جان چھڑانے کا سوچنے لگا، لیکن یہ سارے رسالے اور کتابیں میں نے کئی سالوں میں بڑی لگن سے اور خوب پیسے خرچ کرکے جمع کیے تھے، لہٰذا میں ان کو یونہی کسی کباڑی کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

کھوکھراپار ڈاکخانہ اسٹاپ پر سودا سلف اور سبزی گوشت کی ایک خاصی مصروف مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ غالباً اب بھی ہے۔ اس مارکیٹ کی سب سے بڑی سبزی کی دکان کے مالک کا بیٹا میرا اچھا دوست تھا۔ اس نے مجھے یہ پیشکش کی کہ میں ان کی دکان کے سامنے، انہی سے ایک ٹھیلا لے کر، اپنا پرانے رسالوں کا اسٹال لگا لوں۔ اس نے امید ظاہر کی کہ اس جگہ پر چند دنوں میں میرے سارے رسالے اور کتابیں فروخت ہوجائیں گی۔ میں نے اس کی یہ پیشکش قبول کرلی اور ایک دن صبح اپنے سارے رسالوں کا ذخیرہ لا کر اس ٹھیلے پر سجا دیا۔

کھوکھراپار ڈاکخانہ کے اطراف میں زیادہ تر پڑھے لکھے مہاجر خاندان آباد تھے، چنانچہ جو گاہک بھی سودا سلف لینے آتا وہ میرے ٹھیلے میں بھی ضرور دلچسپی لیتا تھا۔ میں نے ہر رسالے کی قیمت ایک روپیہ رکھی۔ چند ہی دنوں میں وہ سارے کے سارے رسالے اور ناول فروخت ہوگئے اور میں نے سیکڑوں روپے کمالیے، لیکن اس ٹھیلے پر کھلے آسمان تلے، دھوپ، ہوا اور گرد کے ساتھ میں نے جو چند تکلیف دہ دن گزارے، ان کی یاد میرے دل سے کبھی نہیں نکلی۔

اس چند روزہ تجربے سے مجھے ٹھیلے والوں کے جذبات و احساسات کا بھی خوب اندازہ ہوا۔ آج اس بات کو 30 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن میں آج بھی جب سڑک کنارے کھلے آسمان تلے دھوپ میں کھڑے ٹھیلے والوں کو پھل فروٹ و دیگر اشیا لیے گاہکوں کے انتظار میں کھڑا دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے وہی دن یاد آجاتے ہیں، جب میں بھی کچھ عرصے کے لیے ٹھیلے والا تھا۔ مجھے یہ سارے ٹھیلے والے آج بھی اپنے بھائی لگتے ہیں۔

کالج کے داخلے میں اب بھی کئی ماہ باقی تھے۔ مجھے اس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ میں نے میٹرک تک تو مزے مزے سے اردو میڈیم میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرلی، لیکن مستقبل میں انگریزی کے بغیر گزارا نہیں۔ اس زمانے میں کراچی کے طلبہ میں انگلش سیکھنے اور بہتر بنانے کے لیے ’پاک امریکن کلچرل سینٹر‘ (پی اے سی سی) بہت مقبول تھا، بلکہ یہاں پڑھنا ایک فیشن اور اسٹیٹس سمبل کا درجہ رکھتا تھا۔ مجھے بھی دوستوں نے انگلش سیکھنے کے لیے پی اے سی سی میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا۔ پاک امریکن کلچرل سینٹر کی اس وقت کراچی میں 2 برانچیں تھیں۔ ایک فاطمہ جناح روڈ پر فریئر ہال کے سامنے کینٹ اسٹیشن کے قریب تھی اور دوسری پی ای سی ایچ ایس میں شارع فیصل پر لال کوٹھی اسٹاپ پر تھی۔ یہ سینٹر میرے گھر کے قریب تھا اس لیے میں نے یہاں Beginning One کلاس میں داخلہ لے لیا۔

پاک امریکن کلچرل سینٹر

3 مہینے کا کورس تھا اور پورے 3 مہینے کی فیس 250 روپے تھی۔ پڑھائی شروع ہونے سے پہلے میں نے 70 روپے کی فیروز سنز کی شائع کردہ انگلش اردو ڈکشنری بھی خرید لی۔ 30 طلبہ پر مشتمل ہماری وہ کلاس عجب چوں چوں کا مربّہ قسم کی تھی۔ اس ایک ہی کلاس میں مختلف عمروں کے کم یا زیادہ تعلیم یافتہ مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں جمع تھے اور ہم سب ایک دوسرے کے حادثاتی کلاس فیلو تھے۔ کراچی میں جاپانی اسکول کے پرنسپل مسٹر سوزوکی بھی ہمارے کلاس فیلو تھے، جن کی عمر اس وقت غالباً 60 سال تھی۔ اردن سے تعلق رکھنے والے 2 عرب نوجوان بھی ہمارے کلاس میٹ تھے۔

ان بھانت بھانت کے شاگردوں کی استاد ایک نوجوان سی اینگلو انڈین خاتون تھیں، جن کا نام مجھے بدقسمتی سے اب یاد نہیں۔ انہوں نے ہمیں بہت محبت اور لگن سے پڑھایا اور ہماری انگریزی استعداد میں خاصا اضافہ کیا۔ اس دوران مسٹر سوزوکی سے ہم نے جاپانی سیکھنے کی بھی لاحاصل کوشش کی اور اس کے نتیجے میں، مَیں صرف اپنا نام ’عبید‘ ہی جاپانی رسم الخط میں لکھنا سیکھ پایا۔ میں جب آج بھی کبھی اپنی اس زمانے کی پرانی ڈائریوں کے صفحات پلٹتا ہوں تو ان میں جگہ جگہ میرے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک جاپانی لفظ نظر آتا ہے۔ صرف میں ہی سمجھ سکتا ہوں کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے۔ وہ نام تو میرا ہی لکھا ہوا ہے، لیکن اسے دیکھ کر مجھے مسٹر سوزوکی کی مہربان شخصیت یاد آنے لگتی ہے۔ ہمارے پیارے کلاس فیلو مسٹر سوزوکی، تم کہاں ہو؟

پاک امریکن کلچرل سینٹر میں دیگر طالب علموں کے ساتھ—تصویر عبیداللہ کیہر

میرا اور ندیم کا داخلہ کراچی کے مؤقر تعلیمی ادارے ’ڈی جے کالج‘ میں ہوگیا۔ ندیم نے پری میڈیکل لیا اور مستقبل میں ڈاکٹر بننے کی تیاری کرنے لگا، میں نے پری انجینئرنگ کا انتخاب کیا اور مستقبل میں انجنیئر بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ ندیم اور میں حالانکہ اسکول کی ایک ہی کلاس میں پڑھتے رہے تھے اور امتحانات میں ایک دوسرے کے فریق بھی رہے تھے، لیکن اس مسابقت کے باوجود ہم آپس میں بہت اچھے دوست تھے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ کسی مشکل سبجیکٹ کی تیاری مجھے اس نے کروائی لیکن امتحان میں میرے نمبر اس سے زیادہ آگئے۔ مگر اس پر ہم دل میلا نہیں کرتے تھے بلکہ قہقہے لگاتے تھے۔

ڈی جے کالج کے بارے میں، مَیں ذرا تفصیل بتاتا چلوں۔ اگر کراچی کی 100 سال پہلے کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہاں ہمیں ایک بھی اہم تعلیمی ادارہ نظر نہیں آتا۔ اس وقت کراچی کے طالب علم بمبئی یا لندن جاکر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ 1865ء کے اعداد و شمار کے مطابق پورے سندھ میں صرف 4 ہائی اسکول، 3 مڈل اسکول، 56 پرائمری اسکول اور صرف ایک ٹریننگ کالج تھا۔ 1884ء میں کراچی کی چند علم دوست شخصیات نے بڑی جدوجہد کے بعد یہاں ایک کالج کی بنیاد رکھی جس کا نام ’سندھ آرٹس کالج‘ طے پایا۔

انہی دنوں کراچی کی ایک متمول شخصیت سیٹھ دیا رام جیٹھ مل کا انتقال ہوا۔ ان کے لواحقین نے اس وعدے پر ایک خطیر رقم دینے کا اعلان کیا کہ اس کالج کو دیا رام جیٹھ مل سے موسوم کیا جائے۔ چنانچہ یہ عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی اور دیا رام جیٹھ مل کالج (ڈی جے کالج) کہلائی۔ ڈی جے کالج کی پرشکوہ عمارت آج بھی مرکز شہر میں پوری آب و تاب سے جلوہ افروز ہے۔

ڈی جے کالج، کراچی

ڈی جے کالج، کراچی

ڈی جے کالج میں میری اور ندیم کی کلاسیں تو الگ تھیں لیکن باہر ہم ساتھ ساتھ ہی گھومتے پھرتے تھے۔ کالج میں آتے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ اب ہمیں لکھنے کا بہت سارا کام کرنا ہے اور اس کے لیے ہمیں بہت سارا کاغذ چاہیے۔ کاپیاں اور رجسٹر تو قریب ہی اردو بازار میں خوب ملتے تھے، لیکن اتنے سارے کام کے لیے وہ یقیناً خاصے مہنگے ثابت ہوتے۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ کھوڑی گارڈن چلے جاؤ، وہاں ڈاٹ میٹرکس پرنٹر کا استعمال شدہ، مگر ایک طرف سے خالی کمپیوٹر پیپر رول کلو کے حساب سے ملتا ہے۔ وہ رف کام کے لیے بہت سستا پڑے گا۔

چنانچہ میں اور ندیم ایک دن کالج سے نکل کر پیدل ہی کھوڑی گارڈن (ڈینسو ہال) کی طرف چل پڑے۔ اس زمانے میں ٹریفک اور رش اتنا نہیں ہوتا تھا اس لیے پیدل چلنے میں بھی بہت مزا آتا تھا۔ راستے میں نیو چالی کے قریب ایک بن کباب کا ٹھیلا نظر آیا۔ ٹھیلے سے ڈبل روٹی سینکنے کی بڑی اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔ ہمیں بھوک بھی لگ رہی تھی۔ میں اور ندیم ٹھیلے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ بن کباب والے نے پھرتی سے ہمارے لیے 2 بن کباب تیار کیے اور تام چینی کی چوڑی پلیٹ میں چٹنی اور پیاز کے لچھوں کے ساتھ پیش کر دیے۔ ہم نے گپیں لگاتے ہوئے بن کباب پر ہاتھ صاف کیا اور ہونٹ چاٹتے ہوئے چل دیے۔ کافی آگے جا کر میں نے ندیم سے پوچھا، ’تم نے بن کباب کے پیسے دے دیے تھے نا؟‘

’نہیں تو۔ میں تو سمجھا تم نے دے دیے ہیں’۔ ندیم بولا۔

’ارے۔۔۔میں نے تو نہیں دیے’۔ میں ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ ہم دونوں واپس پلٹے اور جلدی جلدی چلتے ہوئے بن کباب والے کے پاس پہنچے۔ میں نے پیسے نکال کر اس کو دیے اور معذرت کی کہ ہم پیسے دینا بھول گئے تھے۔

’کوئی بات نہیں‘۔ وہ بولا۔

’کیا آپ کو معلوم تھا کہ ہم پیسے دیے بغیر جارہے ہیں؟‘ ندیم نے اس سے پوچھا۔

’ہاں‘۔ اس نے مختصراً جواب دیا۔

’ہیں!!۔۔۔ تو پھر آپ نے ہمیں آواز کیوں نہیں دی؟‘ ہم دونوں ایک ساتھ بولے۔

’ارے بیٹا کوئی بات نہیں۔ کھانے پینے کی چیز کے لیے کیا آواز لگانا۔ کوئی بات نہیں‘۔

ہم دونوں ششدر رہ گئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

ہم نے اس دن اس بن کباب والے سے زندگی کا ایک بڑا سبق سیکھا تھا۔

مجھے اپنے گھر، ملیر کھوکھراپار سے ڈی جے کالج آنے کے لیے 2 بسیں بدلنا ہوتی تھیں۔ پہلی کھوکھرا پار سے صدر 15A ہوتی تھی اور دوسری صدر دواخانہ سے برنس روڈ تک 2D یا 2K وغیرہ ہوتی تھی۔ اتنے طویل فاصلے کو طے کرکے صبح 8 بجے کالج پہنچنے کے لیے مجھے صبح 6 بجے ہی گھر سے نکلنا پڑتا تھا۔

سب بسوں میں طالب علم کا کرایہ 30 پیسے فکس تھا۔ اس حساب سے میری 4 بسوں کا کرایہ ایک روپے 20 پیسے بنتا تھا، لیکن مجھے گھر سے صرف ایک روپیہ ملتا تھا، اس لیے مجھے صبح صدر سے برنس روڈ تک آنے یا جانے میں ایک طرف کا راستہ پیدل طے کرنا پڑتا تھا۔ میں ہی کیا ہمارے کالج کے کئی لڑکے یہی کرتے تھے۔ ہم صدر دواخانے پر بس سے اتر کر سینٹ پیٹرک چرچ کے سامنے والی سڑک شارع عراق پر ناک کی سیدھ میں پیدل چلتے ہوئے ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہوجاتے، اس کے سبزہ زار میں لمبی لمبی سانسیں لیتے اور پھر دوسری طرف نکل کر سندھ سیکریٹریٹ کی حدود میں سے گزرتے ہوئے آدھے گھنٹے میں کالج پہنچ جاتے۔ ہائی کورٹ کے اندر سے گزرنے اور سندھ سیکریٹریٹ کے درمیان سے نکلنے پر اس زمانے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ

برنس روڈ

4 میں سے ایک سفر پیدل چلنے کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک کہ میں نے خود ٹیوشن پڑھانے شروع نہیں کردیے۔ ٹیوشن سے ملنے والی فیس کی رقم آنے لگی تو میں نے کے ٹی سی کی بسوں کے بجائے کھوکھراپار سے صدر R رُوٹ کی پیلی سفید پرائیویٹ بیڈ فورڈ ویگن میں آنا جانا شروع کیا۔ ویگن کا کرایہ بس کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ، سوا روپیہ (ایک روپے پچیس پیسے) ہوا کرتا تھا لیکن یہ بہت کم وقت میں صدر پہنچا دیتی تھی اور سفر بھی سیٹ پر بیٹھ کر عزت سے ہوتا تھا۔

برنس روڈ اسٹاپ پر’لائٹ آف پاکستان بک اسٹال‘ ہوا کرتا تھا۔ یہاں سارے اخبار، رسالے اور ادبی کتابیں ملتی تھیں۔ یہ عین بس اسٹاپ پر تھا اس لیے بس آنے تک میں اس کے شیلف میں سجی کتابوں کے نام پڑھا کرتا تھا اور ہلکی پھلکی ورق گرادانی بھی کرلیتا تھا۔ ٹیوشن کے پیسے آنے کے بعد میں نے یہاں سے کئی کتابیں خریدیں۔ اختر ممونکا کی کتاب ’پیرس دو سو پانچ کلومیٹر‘، دیوان سنگھ مفتون کی ’ناقابلِ فراموش‘ اور مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ ’خانہ بدوش‘ میں نے یہیں سے خریدے اور یہ کتابیں آج بھی میرے پاس موجود ہیں۔

سندھ مسلم لا کالیج، کراچی

قومی عجائب گھر، کراچی

ڈی جے کالج کی قدیم اور پرشکوہ عمارت تھی بڑی پُراسرار۔ اونچی اونچی چھتوں والی اندھیری اندھیری کلاسیں، چوڑی چوڑی سیڑھیاں، بلند و بالا ستون اور قدیم ساخت کے دروبام۔ کالج کی بیرونی چاردیواری بہت نیچی ہوتی تھی۔ اکثر میں، پرویز اور عامر کالج کی پچھلی دیوار پھلانگ کر اسٹریچن روڈ پر کودتے اورخراماں خراماں ٹہلتے ہوئے برنس روڈ چوک پر فریسکو سوئیٹ پہنچ جاتے اور حلوہ پوری کھاتے۔ اس وقت فریسکو کی پوری، آلو چنے کی بھجیا اور حلوے کے ساتھ، 8 آنے کی ایک ملا کرتی تھی۔ جبکہ اصلی گھی کی موٹی جلیبیاں غالباً 80 روپے کلو ملتی تھیں۔

ڈی جے کالج اور سندھ مسلم لاء کالج کی عمارتیں آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ سڑک پار ہی قومی عجائب گھر تھا۔ عجائب گھر کا سبزہ زار بہت شاندار تھا۔ ڈی جے کے طلبہ کے لیے عجائب گھر میں جانے کے لیے کوئی ٹکٹ نہیں تھا اور اس کے سبزہ زار میں بیٹھ کر اسٹڈی کرنے پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ میں کبھی کبھی اس کے باغ میں بیٹھ کر مطالعہ کیا کرتا تھا، لیکن حیران ہوتا تھا کہ میرے علاوہ خال خال ہی کوئی طالب علم اس خوبصورت باغ کا رخ کرتا تھا۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔