کراچی جو اِک شہر تھا (ساتواں حصہ)
یہ اس سیریز کا ساتواں بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں اور چھٹا حصہ پڑھیں۔
ہمارے زمانے میں طالب علمی کے 5 ادوار ہوا کرتے تھے۔ پرائمری، لوئر سیکنڈری، میٹرک، انٹر اور ڈگری۔ 1981ء میں میرا لوئر سیکنڈری کا دور مکمل ہوا اور ہماری کلاس 9ویں جماعت میں آگئی۔ پچھلے دور اور اس دور میں بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلی سے 8ویں تک تو ہم اپنے سارے امتحان اپنے ہی اسکول میں اپنے ہی اساتذہ کی زیرِ نگرانی دیتے آئے تھے، لیکن اب صورتحال یوں تشویش ناک تھی کہ ہمارے امتحان اب سیکنڈری بورڈ کے تحت ہونے تھے اور یہ ہمیں اپنے اسکول میں نہیں بلکہ کسی اور اسکول میں جاکر دینے تھے۔ کہاں؟ جہاں ’سینٹر‘ پڑے گا اور یہ لفظ ’سینٹر‘ ہر طالبِ علم کے لیے خاصا خوفناک ہوتا تھا، خصوصاً پڑھنے میں کمزور اور نقل چور لڑکوں کے لیے۔
اللہ جانے کہاں سینٹر پڑے گا؟ کتنی سختی ہوگی؟ پیپر کتنا مشکل آئے گا؟ ’پھرّے‘ لے جانے اور نقل مارنے کا موقع ملے گا یا نہیں؟ پنجاب میں جس چیز کو ’بُوٹی‘ کہتے ہیں کراچی میں اس کے لیے ’پھرّے‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔
ہمارا شمار پڑھاکُو اور تیز لڑکوں میں ہوتا تھا۔ میری ہر سبجیکٹ کی کاپیوں میں نوٹس اور سوالات وجوابات بہت صفائی اور عمدگی کے ساتھ لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ جیسے جیسے 9ویں جماعت کے امتحان قریب آتے گئے، میری کاپیاں اور میرے نوٹس میرے ہم جماعت لڑکوں کے لیے اہم ہوتے چلے گئے۔ میری کاپیاں میرے اکثر کلاس فیلو مجھ سے اپنا کام مکمل کرنے کے بہانے لے کرجاتے تھے، لیکن وہ اسے لکھ کر کاپی کرنے کے بجائے چپکے سے اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں کروا رہے تھے، ’مائیکرو فوٹو اسٹیٹ‘۔
کوچنگ سینٹرز کے تیار کردہ گیس پیپرز کی مدد سے منتخب سوالات کے جوابات کی مائیکرو فوٹو اسٹیٹ کاپیاں، جنہیں لڑکے اپنی آستینوں اور جرابوں میں چھپا کر کمرہ امتحان میں لے جاتے تھے اور پیپر دیتے وقت ان پر سے نقل مارتے تھے۔ یعنی میری کاپیاں امتحان میں نقل کرنے کے لیے ’پھرے‘ بنانے میں استعمال ہو رہی تھیں اور مجھے اس کی کانوں کان خبر نہیں تھی۔