جان کو خطرہ، آسیہ بی بی کے وکیل ملک چھوڑ گئے
اسلام آباد: توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت کی منتظر مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سپریم کوٹ سے رہائی کے بعد ان کے وکیل ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
فرانسیسی خبر رساں اداے اے ایف پی کے مطابق آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کو آسیہ بی بی کا کیس لڑنے اور انہیں رہائی دلوانے کے بعد جان سے مار دینے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔
یورپ روانگی سے قبل ایئرپورٹ پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے 62 سالہ وکیل کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال میں میرا پاکستان میں رہنا نا ممکن ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے آسیہ بی بی کے لیے مزید قانونی جنگ لڑنی ہے اور ایسے میں ان کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: آسیہ بی بی کی بریت، فیصلے کے 7 اہم ترین نکات
جب سیف الملوک سے مذہبی جماعتوں کے شور شرابے کے بارے میں بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ حالات بدقسمت ضرور ہیں لیکن غیر متوقع نہیں ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں دکھ کی بات ہماری حکومت کا ردِ عمل ہے جو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم کی تعمیل میں ناکام ہوئی، تاہم انصاف کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔
آسیہ بی بی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کی موکلہ قید میں رہیں یا پھر زندگی کو لاحق خطرات میں آزاد رہیں، ان کی زندگی اپیل کا فیصلہ آنے تک ایک جیسی ہی رہے گی۔
آسیہ بی بی کی بریت
خیال رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے 8 اکتوبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 31 اکتوبر کو سناتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر آسیہ بی بی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری رہا کیا جائے۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا، جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا۔
عدالت کی جانب سے دیے گئے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ اس میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت سے معاہدہ طے پاگیا، مظاہرین کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان
سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس کا سامنا کرنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کے حکم کے بعد کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مذہبی جماعتوں نے احتجاج شروع کردیا تھا۔
مذہبی جماعتوں کے دھرنوں اور مظاہروں کی وجہ سے ملک کے بیشتر علاقوں میں معمولاتِ زندگی معطل ہوگیا۔
2 نومبر کو حکومت اور مظاہرہ کرنے والی مذہبی جماعتوں کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں جاری احتجاج ختم ہوگیا اور معمولاتِ زندگی بھی معمول پر آگئے، جبکہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کردی گئی۔
آسیہ بی بی کیس
پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔
جھگڑے کے دوران اس خاتون کی جانب سے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جس کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔
مزید پڑھیں: کوشش ہے کہ طاقت کے استعمال کی نوبت نہ آئے، فواد چوہدری
بعد ازاں آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس پر ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی، تاہم ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، تاہم عدالت نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔