3 جون 2018ء کو عام انتخابات سے صرف ایک ماہ پہلے کئی ٹوئٹر صارفین نے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم پر عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) کے زیرِ انتظام ایک ویب سائٹ کھولنے میں ناکامی کا اظہار کیا۔
پہلے ملک کی مختلف انٹرنیٹ کمپنیوں کے صارفین کے لیے قابلِ رسائی یہ ویب سائٹ اب ایک ایسے پیج تک لے جا رہی تھی جس پر لکھا تھا کہ یہ ویب سائٹ ’ناقابلِ رسائی‘ ہے کیونکہ ’اس میں ایسا مواد ہے جسے پاکستان کے اندر دیکھنے پر پابندی عائد ہے‘۔ مگر بیرونِ ملک موجود صارفین کو اس ویب سائٹ تک رسائی حاصل رہی۔
’سرف سیفلی‘ نامی اس پیغام نے اشارہ دیا کہ ویب سائٹ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بلاک کی تھی جسے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) کی شق 37 کے تحت ایسے کسی بھی مواد کو ہٹانے، بلاک کرنے یا اس تک رسائی محدود کرنے کا اختیار حاصل ہے جسے یہ غیر قانونی سمجھتی ہو۔
مگر اے ڈبلیو پی کے کارکنان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئی باضابطہ درخواست میں پارٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ باوجود اس کے کہ تکنیکی ثبوت ویب سائٹ بلاک کرنے میں پی ٹی اے کی جانب اشارہ کر رہے تھے مگر ’کسی بھی موقع پر اے ڈبلیو پی کو کسی بھی سرکاری ادارے، بشمول پی ٹی اے کی جانب سے ہمیں بلاک کرنے کی وجوہات کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ہمیں معاملے کو حل کرنے کا موقع نہیں ملا۔‘
اے ڈبلیو پی نے کہا کہ قانونی طور پر رجسٹرڈ سیاسی جماعت کی ویب سائٹ بلاک کرنا آئین کے تحت وابستگی اور اظہار کے بنیادی حقوق کی پامالی تھا۔ اسی طرح پی ٹی اے کو ایسی ہی درخواست بھیجی گئی مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، جس کے بعد پارٹی کارکنان نے انتخابی مہم چلانے کے لیے عارضی طور پر ایک نئی ویب سائٹ قائم کرلی۔
اے ڈبلیو پی کی اپیل پر ویب سائٹ 3 روزہ سینسرشپ کے بعد بحال ہوگئی مگر پھر بھی اس کے بلاک ہونے کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔
یہ پاکستان میں غیر شفاف انداز میں سیاسی مواد بلاک کیے جانے کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان میں حالیہ کچھ سالوں میں انٹرنیٹ پر پابندیوں میں سختی آئی ہے۔
بین الاقوامی ادارے فریڈم ہاؤس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان 2017ء میں مسلسل چھٹی مرتبہ ’غیر آزاد‘ قرار پایا ہے۔