پاکستان

راولپنڈی: مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں جاں بحق

محافظ کچھ وقت کیلئے باہر گیا، مولانا گھر میں اکیلے تھے، نامعلوم افراد نے انہیں چھریوں کے وار سے شدید زخمی کیا تھا، بیٹا

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور سابق سینیٹر مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملہ میں جاں بحق ہوگئے۔

مولانا سمیع الحق پر راولپنڈی میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر کے اندر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جس میں ان کی موت واقع ہوئی۔

نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے سابق سینیٹر مولانا سمیع الحق کے بیٹے حمیدالحق نے تصدیق کی کہ ان کے والد کو چھریوں کے وار کرکے قتل کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق جب مولانا سمیع الحق پر حملہ ہوا، وہ گھر میں اکیلے تھے۔

ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ان کے محافظ، جو ان کے ڈرائیور بھی تھے، نے بتایا کہ وہ کچھ وقت کے لیے انہیں کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر گئے اور جب وہ واپس آئے تو انہیں شدید زخمی حالت میں پایا۔

مولانا سمیع الحق کو زخمی حالت میں قریبی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل راستے میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔

قبل ازیں صدر جے یو آئی (س) پشاور مولانا حصیم نے بھی مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملے کی تصدیق کی تھی۔

خیال رہے کہ مولانا سمیع الحق مدرسہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم تھے جبکہ وہ پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بھی رہ چکے تھے۔

افغان طالبان سے مذاکرات میں ان کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے، کیونکہ افغان طالبان کے کئی رہنما ان کے شاگرد رہے تھے، اسی وجہ سے ان پر مولانا سمیع الحق کا بہت حد تک اثر مانا جاتا تھا۔

دوسری جانب مولانا سمیع الحق کے قتل پر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے افسوس کا اظہار کرتے کہا کہ سابق سینیٹر مولانا سمیع الحق کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی اور ان کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سابق آئی ایس آئی افسر اور پرویز خٹک کی مولانا سمیع الحق سے ملاقات

میڈیا رپورٹس کے مطابق مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ کل دوپہر 2 بجے ادا کی جائے گی۔

مولانا سمیع الحق کون تھے؟

جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ سمیع الحق خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں قائم دینی مدرسے دارالعلوم حقانیہ کے نگران تھے۔

مولانا سمیع الحق 18 دسمبر 1937 کو خیبر پختونخوا کے علاقے اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے تھے، انہیں پاکستان کے مذہبی اسکالر، معروف عالم اور سیاست دان کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

وہ دو مرتبہ، 1985 سے 1991 اور 1991 سے 1997 تک سینیٹ کے رکن بھی رہے۔

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد کے بنائے ہوئے مدرسے دارالعلوم حقانیہ میں حاصل کی تھی اور بعد ازاں انہوں نے اس مدرسے کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تھا۔

مولانا طالبان مذاکرات کے حامی تھے

خیال رہے کہ مولانا سمیع الحق طالبان سے متعدد مرتبہ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے اور انہوں نے افغان حکومت کی طالبان سے حالیہ مذاکرات کی بھی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں بھی افغان حکام اور علما نے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ سے طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: ‘مولانا سمیع الحق ایجنسیوں کے ہاتھوں میں مت کھیلیں‘

مولانا سمیع الحق کے بہت سے شاگرد افغانستان میں مقیم ہیں جس کی وجہ سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ طالبان پر اثر و رسوخ رکھتے تھے جو اکثر ان کے لیے مذاکرات کے عمل میں مددگار ثابت ہوتے تھے۔

انہوں نے پاکستان کی حکومت کو ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے خود کو علیحدہ کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتی ہے تو کراچی، بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں امن و امان خود بخود بحال ہو جائے گا۔

انتخابات میں تحریک انصاف سے اتحاد

یاد رہے کہ مولانا سمیع الحق کی جماعت نے رواں سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی کے اتحاد متحدہ مجلس عمل سے الحاق نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد کیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ملک میں مدرسوں، درسگاہوں میں اصلاحات پر عمل در آمد کے لیے اقدامات کر رہے تھے۔

بہت دکھ اور غم کا ماحول ہے، حامد میر

نجی چینل سے تعلق رکھنے والے معروف سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ بہت دکھ اور غم کا ماحول ہے، اور ان کے عزیز اور طلباء کو صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی افغان طالبان کو مذاکرت کی پیشکش، مولانا سمیع الحق کا خیرمقدم

انہوں نے کہا کہ ان کے جنازے میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہو گی اور اسی دوران دہشت گردوں کی جانب سے خطرناک کارروائی کا بھی خطرہ ہے۔

بہت بڑا سانحہ اور نازک دور میں پیش آیا، سلیم صافی

معروف سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ان کے نظریات سے اختلاف کر سکتے تھے لیکن وہ بہت اچھے انسان تھے اور مخالفین سے بھی بہت خلوص سے ملتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب جمیعت علماء اسلام 2 حصوں میں تقسیم ہوئی لیکن اس کے باوجود ان کے تمام دھڑوں کے ساتھ تعلقات تھے۔

انہوں نے کہا کہ دینی حلقوں میں مولانا سمیع الحق عموماً ریاست کے ساتھ کھڑے ہوتے، اگر چہ لوگ انہیں طالبان کا حامی سمجھتے تھے لیکن ان کی جانب سے پاکستان میں کبھی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت نہیں کی گئی۔