پاکستان

سپریم کورٹ کا وزیر اعظم سمیت 65 افراد کا گھر ریگولرائز کرنے کا حکم

ایسی عمارتوں کی ریگولرائزیشن نہیں ہوسکتی جو بلڈنگ ریگولیشن کے خلاف ہوں، اٹارنی جنرل کا عدالت میں بیان
|

سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان سمیت بنی گالا تعمیرات کی ریگولرائزیشن کیلئے درخواست دینے والے 65 افراد کی تعمیرات ریگولرائز کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بنی گالا میں غیرقانونی تعمیرات کی ریگولرائزیشن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد کے زون 4 میں 72 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبہ ہے، جس پر 65 ہزار گھر تعمیر ہوچکے ہیں، جنہیں سی ڈی اے بائی لاز کے مطابق ریگولرائز کیا جانا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم حکم پرعمل کرکے دوسروں کیلئے مثال بنیں، چیف جسٹس

انہوں نے بتایا کہ عمران خان کا گھر زون 4 اور زون 3 میں آتا ہے، انہوں نے ریگولرائزینش کے لیے درخواست دے رکھی ہے، رہائشی علاقوں کے لیے 6 روپے فی مربع فٹ فیس مقرر کی ہے، تاہم عمارتوں کے استعمال میں تبدیلی فیس الگ ہوگی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایسی عمارتوں کی ریگولرائزیشن نہیں ہوسکتی جو بلڈنگ ریگولیشن کے خلاف ہوں جبکہ اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ریگولرائزیشن 2005 کے ریگولیشن کے مطابق ہوگی۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 2005 سے اب تک ریگولرائزیشن کیوں نہیں ہوئی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے وکیل بابر اعوان کہاں ہیں، انہیں آج آنا چاہیے تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس علاقے میں گلیوں اور نکاسی آب کا کوئی نظام نہیں جبکہ بنی گالا میں زلزلہ سے بچاؤ کی تدابیر کے بغیر کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی گئیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب یہ عمارتیں بن رہی تھیں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کہاں تھی؟ میں حیران ہوتا ہوں کہ سی ڈی اے میں کیا ہو رہا ہے، سی ڈی اے والے اب کچھ کرلیں، انصاف کرنا صرف عدالتوں کا کام نہیں، خدانخواستہ زلزلہ آتا ہے تو بہت بڑی عمارت تباہ ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان نے زون 3 کے بارے میں درخواست دائر کی تھی، اس کی حالت زون 4 سے بھی بری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان کا گھر پہلے ریگولرائز ہوگا تو باقی بھی ہوں گے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری ہاؤسنگ، سیکریٹری لوکل گورنمنٹ، ڈی جی تحفظ ماحولیات، چیئرمین سی ڈی اے، سیکریٹری ماحولیاتی تبدیلی پر مشتمل کمیٹی قائم کی ہے لیکن کمیٹی نے ابھی تک رپورٹ پیش نہیں کی۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی نے تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کی سفارش کی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 65 ہزار گھروں میں سے اب تک 65 درخواستیں آئی ہیں، ماسٹر پلان کے بغیر کیسے ریگولرائزیشن کریں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماسٹر پلان موجود ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو 65 درخواستیں آئی ہیں انہیں ریگولرائز کریں، باقی کے لیے ماسٹر پلان بنائیں۔

ساتھ ہی عدالت نے ریگولرائزیشن کمیٹی کو تفصیلات دینے کیلئے مزید 10 روز کی مہلت دے دی۔

واضح رہے کہ بنی گالا اسلام آباد کا علاقہ ہے جہاں تجاوزات کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے، تاہم 13 فروری کو سپریم کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو بنی گالا میں تعمیر 300 کنال کی رہائش گاہ کا منظور شدہ سائٹ پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم عمران خان کے وکیل کی جانب سے دستاویزات جمع کرانے کے بعد 22 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ بنی گالا میں عمران خان کے گھر کی تعمیر کا سائٹ پلان منظور شدہ نہیں۔

28 فروری کو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے عمران خان کے بنی گالا میں قائم گھر کی تعمیرات کے معاملے پر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس کے مطابق سابق سیکریٹری یونین کونسل (یو سی) نے بنی گالا گھر کے این او سی کو جعلی قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’بنی گالا میں عمران خان کے گھر کا سائٹ پلان منظورشدہ نہیں‘

6 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بنی گالا تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ہماری نظر میں عمران خان کی رہائش گاہ غیر قانونی ہے۔

بعد ازاں 16 اکتوبر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ وزیرِاعظم عمران خان کا گھر پہلے ریگولرائز ہونا چاہیے، اس کے بعد ہی دیگر گھر ریگولرائز ہوجائیں گے۔