مولانا فضل الرحمٰن کی اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش ناکام
اسلام آباد: ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو کثیرالجماعتی کانفرنس میں شرکت کے لیے راضی کرنے میں ناکامی پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کانفرنس ملتوی کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کا خیال تھا کہ کانفرنس سے اپوزیشن جماعتوں کو حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف متحد ہونےکا موقع ملے گا۔
تاہم پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے کے باعث اسے ملتوی کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: 'فضل الرحمٰن کو دن میں تارے، رات کو اسرائیلی طیارے نظر آتے ہیں'
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی رہائش گاہ پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیش کی گئی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔
بعد ازاں جے یو آئی ایف کے پارلیمانی اجلاس کے بعد صحافیوں سے دوبارہ گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفرالحق نے تجاویز پیش کیں۔
تاہم مولانا نے اس سوال کا جواب دینے گریز کیا کہ جب وہ نہ تو رکن قومی اسمبلی ہیں نہ صوبائی اسمبلی تو انہوں نے پارلیمانی اراکین کے اجلاس میں کس حیثیت سے شرکت کی۔
مزید پڑھیں: ’مولانا فضل الرحمٰن کلو گوشت کیلئے بھینس ذبح کرنا چاہتے ہیں‘
اس کے علاوہ جب مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھا گیا کہ کانفرنس کے انعقادکی ناکامی کا سبب جلد بازی میں فیصلہ کرنا تھا یا اپوزیشن جماعتیں اپنے معاملات میں بہت زیادہ مصروف ہیں، تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے جواب دینے سے انکار کیا کہ ’میں اب ان سوالات کے جوابات نہیں دوں گا‘۔
دوسری جانب ایک میڈیا پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کانفرنس کی کوئی حتمی تاریخ طے نہیں ہوئی تھی، یہ صرف زیر غور معاملہ تھا جس کی اطلاعات میڈیا میں لیک ہوگئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب اس بات کا فیصلہ ہوا ہے کہ اعلیٰ قیادت حکومت کے خلاف تحریک کا پیمانہ مقرر کرے گی اور اس سلسلے میں ہونے والے اجلاس کی سربراہی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ(ن) کا اپوزیشن کی اے پی سی میں شرکت کرنے کا فیصلہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پارلیمانی اجلاس میں کیے گئے فیصلے سے مجھے آگاہ کیا جائے گا کہ کانفرنس کا انعقاد کیا جائے یا نہیں اور یہ عوام اور ملک کی بہتری کے لیے حکومت گرانے کا وقت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی کارکردگی خاصی ناقص ہے اور یہ ہی وقت تھا کہ اسے ختم کیا جائے لیکن اس حوالے سے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی آرا میں اختلافات پائے جاتے ہیں کہ کب اس حکومت کو ختم کیا جانا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی حکومت کے لیے اقتدار میں رہنے کے لیے 100 دن کا کوئی وقت مقرر نہیں، اگر اپوزیشن عوام کی آواز نہیں بنے گی تو کون بنے گا۔
مزید پڑھیں: 'نوازشریف اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ شبہازشریف سے مشاورت کے بعد کریں گے'
خیال رہے کہ اس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے سینیٹر راجہ ظفرالحق سےملاقات کی تھی جس میں حکومت مخالف حکمت عملی پر گفتگو کی گئی تھی، تاہم انہیں بتایا گیا کہ دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہ کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔