پاکستان

آسیہ بی بی کی بریت کےخلاف مذہبی جماعتوں کااحتجاج

فیض آباد انٹرچینج ٹریفک کے لیے بند، پنجاب کے مختلف شہروں، کراچی اور حیدرآباد میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
| |

سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس کا سامنا کرنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کے حکم کے بعد کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اپنے کارکنان کو جمع ہونے کی کال دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آسیہ بی بی کو رہا کیا جائے تو اس کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروائیں۔

عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد مذہبی جماعت کے کارکنان اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد پر جمع ہونا شروع ہوگئے اور وہاں روڈ کو بلاک کردیا، علاوہ ازیں اسلام آباد میں آبپارہ کے علاقے کو بھی بند کروادیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ اہلِ سنت والجماعت نے بھی آبپارہ کے علاقے میں احتجاج شروع کردیا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

پنجاب بھر میں مظاہرے، کئی علاقے بند

اسلام آباد میں مظاہرین نے ٹرالر کو روک کر روڈ کو بلاک کردیا — فوٹو، اے ایف پی

تحریک لبیک پاکستان نے شیخوپورہ اور قصور شہر میں احتجاج کرتے ہوئے ان کے مختلف علاقوں کو بند کردیا۔

ایک روز قبل علامہ خادم حسین رضوی کی سربراہی میں ٹی ایل پی کے کارکنان نے بھی پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج کیا تھا، جبکہ داتا دربار کے باہر بھی دھرنا دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

لاہور میں مظاہرین نے موٹروے پر احتجاج کرتے ہوئے بابوصابو، فیض پور، شیخوپورہ اور کالاشاہ کاکو انٹرچینچ بند کردیا۔

علاوہ ازیں اوکاڑہ، رینالہ خورد، پتوکی، مانگا منڈی موہلنوال اور پکا میل مقامات پر بھی ہائی وے کو بند کردیا گیا۔

سرگودھا میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے اور علماء کرام نے شہر بھر میں ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے 12 بلاک چوک میں احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا۔

مظاہرین نے زبردستی دکانیں بند کروادیں جبکہ حالات کی کشیدگی پر اسکولوں میں چھٹی کردی گئی۔

سندھ میں اہم شاہراہیں بند

کراچی کے علاقے شفیق موڑ پر رینجرز اہلکار مسافروں کو متبادل راستہ بتارہے ہیں — فوٹو بشکریہ عبدالواسع راجپوت

ادھر کراچی میں بھی مظاہرین نے سہراب گوٹھ کے علاقے میں سپر ہائی وے کو بند کردیا جس کے ساتھ ہی کراچی سے حیدرآباد جانے والا ٹریفک متاثر ہوگیا۔

مظاہرین نے لیاری ایکسپریس وے، اسٹار گیٹ پر شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، ٹاور، حب ریور روڈ، نمائش چورنگی اور سرجانی ٹاؤن میں 4 کے چورنگی کو بند کردیا۔

اس دوران مظاہرین نے کوریج کے لیے جانے والی نجی ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی وین پر بھی پتھراؤ کردیا جس کے بعد چینل کا عملہ گاڑی سمیت وہاں سے واپس چلا گیا۔

سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں بھی مظاہرین سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور کاروباری مراکز بھی بند کروادیے۔

جمعیت علمائے اسلام، جمعیت اہلِ حدیث، جماعت اسلامی کا مظاہروں کا اعلان

جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کرنے کا اعلان کردیا۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’آج سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ ایک تشویشناک ہے، یہ فیصلہ عالمی دباؤ میں دیا گیا‘۔

تحریک لبیک پاکستان کا کارکن پرچم لہرارہا ہے عقب میں مظاہرین کی بڑی تعداد موجود— فوٹو، اے ایف پی

ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح فیصلہ دیا گیا ہے اس کے ردِ عمل میں پوری قوم سڑکوں پر آگئی ہے۔

ادھر جمعیت اہل حدیث کے سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر ریاض الرحمٰن یزدانی نے آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف مرکزی مظاہروں کا اعلان کردیا۔

سینیٹر حافظ عبدالکریم کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’عدالتی فیصلے سے ملک میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے سے توہینِ رسالت کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے، یہ ایک عالمی سازش دکھائی دیتی ہے، بعض قوتیں پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں۔

ادھر جماعتِ اسلامی (جے آئی) پاکستان نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کرنے کا اعلان کردیا۔

جے آئی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وہ آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کو نامنظور کرتی ہے اور فیصلے کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا جائے گا۔

پنجاب اسمبلی کی سیکیورٹی رینجرز کے سپرد

حکومتِ پنجاب نے کشیدہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی، جس کا اطلاق 31 اکتوبر سے 10 نومبر تک رہے گا۔

مال روڈ پر مذہبی جماعت کے دھرنے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی، اور سیکیورٹی کے پیشِ نظر پنجاب اسمبلی کا مرکزی گیٹ بند کردیا گیا۔

پنجاب اسمبلی کی سیکیورٹی کے لیے پنجاب رینجرز کے خصوصی دستوں کو تعینات کردیا گیا جہاں انہوں نے پوزیشن سنبھال لی۔

ٹرینوں کی آمد و رفت معطل

مذہبی جماعتوں کے احتجاج کی وجہ سے ٹرینوں کی آمد و رفت بھی معطل ہوگئی اور ٹرینوں کو مختلف اسٹیشنز پر روک لیا گیا۔

ترجمان ریلوے کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کی عمومی صورتحال اور مختلف مقامات پر احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے ریلوے کی دو ڈویژنز لاہور اور راولپنڈی میں ٹرینوں کو مختلف اسٹیشنوں پر روک لیا گیا۔

کراچی میں مظاہرین دھرنا دیے بیٹھے ہیں — فوٹو، اے ایف پی

ریلوے کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق صورتحال بہتر ہوتے ہی تمام ٹرینوں کو اپنی اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ کر دیا جائے گا۔

کوئٹہ سے آنے والی کوئٹہ ایکسپریس کو کوٹ لکھپت، کراچی سے آنے والی تیز گام کو رائے ونڈ، گرین لائن کو کوٹ رادھا کشن پر روک لیا گیا۔

راولپنڈی سے آنے والی جعفر ایکسپریس کو سرائے عالمگیر، ریل کار کو لالہ موسیٰ اور کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس کو کھاریاں کے اسٹیشنز پر روک لیا گیا۔

راولپنڈی سے کراچی جانے والی تیز گام اور سیالکوٹ سے کراچی جانے والی علامہ اقبال ایکسپریس کو لاہور کے اسٹیشن پر روک لیا گیا۔

31 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا اور ٹرائل کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے 56 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا، جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ نوٹ تحریر کیا۔

آسیہ بی بی کیس

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔

جھگڑے کے دوران اس خاتون کی جانب سے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جس کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیں: آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل سماعت کیلئے مقرر

بعد ازاں آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس پر ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی، تاہم ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، تاہم عدالت نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔