ڈھاکہ: ایک بنگلہ دیشی عدالت نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی رہنما، غلام اعظم کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی حمایت کرنے پر سزا سنا دی گئی-
غلام اعظم پر قتل کا بھی الزام ہے- ان کو سزا سنائے جانے کے بعد ملک بھر میں ان کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے-
غلام اعظم، جنہیں استغاثہ نے نازی لیڈر اڈولف ہٹلر سے تشبیہ دی، پر جنگ کے دوران منصوبہ بندی، سازش، لوگوں کو اکسانے، قتل اور تشدد کے تمام پانچ الزامات کا مجرم پایا گیا-
تاہم، ایک حکومتی اہلکار کے مطابق 90 سالہ اعظم کو جو کہ جنگ کے دوران ملک کی سب سے بڑی اسلامی پڑتی، جماعت اسلامی کے رہنما تھے اور اب اس کے روحانی رہنما ہیں، ان کی عمر اور صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے سزائے موت نہیں دی گئی بلکہ انھیں نو دہائیوں تک جیل میں قید کی سزا سنی گئی ہے-
سزا سنائے جانے سے قبل ملک بھر میں جماعت اسلامی کے حامیوں اور پولیس کے درمیان تشدد شروع گیا گیا ہے اور جماعت اسلامی، جو کہ ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت اور حزب مخالف کی اہم جماعت ہے، نے پیر کے روز ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے- اس کا کہنا ہے کہ اس ٹربیونل کا مقصد اس کی لیڈرشپ کو ختم کرنا ہے-
استغاثہ نے اعظم کے لئے سزائے موت کی درخواست کی تھی چونکہ ان کی نظر میں جب 1971 کی جنگ میں ہندوستان نے مداخلت کی اور پاکستانی فوج کی شکست صاف دکھائی دینے لگی تو اعظم نے اسلامی ملیشیا کو بڑے پیمانے قتل کرنے کا حکم دیا تھا-
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماوؤں کو سزا سنانے کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے- اس سے قبل بھی چار پارٹی لیڈران کو جنوری سے لے کر اب تک اسی قسم کے جنگی جرائم میں سزا سنائی گئی ہے-
اعظم کے وکیل تاج السلام نے مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کا پورا کیس 1971 کی اخباری رپورٹوں پر مشتمل تھا اور اس حوالے سے استغاثہ ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے-
سنہ 1971 کی جنگ کا آغاز ہزاروں افراد کی 25 مارچ کی شب پاکستانی فوج نے بنگالیوں کے خلاف آپریشن سرچ نائٹ نامی مہم کے دوران ہزاروں افراد کی ہلاکت سے ہوا تھا-
جنگ کا اختتام 16 دسمبر کو اس وقت ہوا جب جب ہندوستان نے ملک پر قبضہ کر لیا اور پاکستانی فوج کو شکست دے دی-
ڈھاکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس تنازعہ میں تین لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو لاکھ خواتین کا ریپ ہوا- آزاد ذرایع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین سے پانچ لاکھ کے درمیان تھی-
جنگ کے اختتام پر نوے ہزار سے زائد پاکستانی فوجیوں، جن میں 195 افسران بھی شامل تھے جن پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام تھا، نے ہتھیار ڈالے تھے جنہیں ہندوستان نے جنگی قیدی بنا لیا تھا-
ان افراد کی رہائی، سنہ 1974 میں اس وقت ہوئی جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگی قیدیوں کے حوالے سے معاہدہ ہوا اور انھیں بنا کسی مقدمہ چلائے واپس پاکستان بھیج دیا گیا تھا-
بنگلہ دیش کی اسلامی پارٹیاں، جن میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے، پاکستان سے علیحدگی کی مخالف تھیں- اس کے کارکنوں نے پاکستان کی حمایت میں ملیشیا قائم کی تھی جو کہ بڑے پیمانے پر قتل عام، ریپ، جلاؤ گھیراؤ اور مذہب کے نام پر قتل و غارت گری میں ملوث تھی-
بنگلہ دیش کی آزادی کے رہنما شیخ مجیب الرحمان، جو کہ موجودہ وزیر اعظم، شیخ حسینہ کے والد تھے، نے ایسے تمام افراد کے خلاف جنگی جرائم میں گرفتاریوں اور مقدمات کے قیام کا حکم دیا تھا- انہوں نے اسی سلسلے میں جماعت اسلامی کے رہنما، غلام اعظم کی شہریت بھی پاکستان کی حمایت کرنے اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بناء پر منسوخ کر دی تھی-
رحمان کو اگست 1975 میں ایک فوجی بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا تھا- اس بغاوت کے دوران اسلامی عسکریت پسندوں نے اپنے گیارہ ہزار سے زائد حامیوں کو بھی آزاد کروا لیا تھا جن پر اس وقت تک جنگی جرائم میں مقدمات نہیں چلائے جا سکے تھے-
شیخ حسینہ نے سنہ 2010 میں ایک انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل قائم کیا تھا جو کہ ایک مقامی عدالت ہے- اس ٹربیونل کا مقصد جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات چلانا ہے جو کہ الیکشن کے دوران ان کی پارٹی کا ایک اہم وعدہ تھا-
دیگر جنگی ٹریبونلز کے برعکس، بنگلہ دیش کے اس ٹربیونل کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل نہیں اور نیو یارک کے انسانی حقوق کے ایک گروپ کے مطابق اس ٹربیونل میں بینالاقوامی میعار کا خیال نہیں رکھا گیا-