کھیل

جسٹس قیوم کی رپورٹ مسترد کرنے کا تاثر غلط ہے، پی سی بی

میڈیا اداروں کی جانب سے دیے گئے اس تاثر میں کوئی تصدیق نہیں کہ پی سی بی نے رپورٹ کو مسترد کردیا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ

پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نے میچ فکسنگ کے حوالے سے جسٹس قیوم کی رپورٹ کو رد کرنے کے تاثر کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی سی بی نے جسٹس قیوم کی رپورٹ کو سراہا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جاری خصوصی بیان میں کہا گیا کہ بورڈ نے میچ فکسنگ کے حوالے سے جسٹس قیوم کی رپورٹ کو سراہتے ہوئے اسے تسلیم کیا تھا اور مختلف میڈیا اداروں کی جانب سے دیے گئے اس تاثر میں کوئی تصدیق نہیں کہ پی سی بی نے رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ میں وسیم اکرم کو کرکٹ کی بہتری اور پی سی بی کے لیے کام کرنے سے نہیں روکا گیا تھا اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سے وسیم اکرم نے ایک کمنٹیٹر، کوچ اور مینٹور کی حیثیت سے دنیا بھر میں اپنی ایک ساکھ بنائی ہے۔

پی سی بی نے کہا کہ وسیم اکرم دنیا بھر میں عظیم کرکٹر مانے جاتے ہیں اور پی سی بی سمیت دیگر بورڈ کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے علاوہ خصوصاً پاکستان میں فاسٹ باؤلنگ کیمپ میں بھی کام کر چکے ہیں۔

یاد رہے کہ اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب پی سی بی نے سابق کرکٹر محسن حسن خان کی سربراہی میں ملک میں کرکٹ کے امور بہتر انداز میں انجام دینے کے لیے ایک چار رکنی کرکٹ کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وسیم اکرم کا نام بھی شامل تھا۔

یاد رہے کہ جسٹس قیوم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وسیم اکرم کو کبھی قومی ٹیم کی دوبارہ قیادت نہ سونپی جائے اور کوئی اہم عہدہ یا ذمے داری بھی نہ دی جائے۔

تاہم کمیٹی میں وسیم اکرم کو شامل کیے جانے کے سوال پر چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے جسٹس قیوم کی رپورٹ کو نامکمل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم اور مجرم ہونے میں بڑا فرق ہے، سابق جج نے اپنی رپورٹ میں الزامات کا ذکر کرتے ہوئے مزید تفصیلات اور شواہد فراہم کرنے کا کہا تھا، بعد میں کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔

دوسری جانب جسٹس ریٹائرڈ ملک محمد قیوم نے چیئرمین پی سی بی کی جانب سے رپورٹ کو نامکمل اور بے نتیجہ قرار دیے جانے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ کو نامکمل قرار دینا درست نہیں کیونکہ مذکورہ رپورٹ کے مطابق کرکٹرز پر پابندیاں لگی تھیں اور جرمانے عائد کیے گئے تھے۔ اگر یہ رپورٹ نامکمل ہوتی تو کرکٹرز پابندی کی مدت کیسے پوری کرتے اور جرمانے کیسے ادا کرتے ؟۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ احسان مانی صاحب نے یہ رپورٹ پڑھی ہے یا نہیں لیکن اگر انہوں نے یہ رپورٹ پڑھی ہوتی تو شاید وہ یہ بات نہ کہتے۔