مقروض نومولود کو مسلمان بنانے کا خرچہ!

ایک نجی زچگی ہسپتال کی پارکنگ میں اپنی گاڑی پارک کرنا چاہی تو پارکنگ والے نے شیشہ کھڑکا کر تنبیہہ کی کہ اگر گاڑی پارک کرنی ہے تو چابی دینی پڑے گی۔
دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ ہسپتال میں رش ہونے کی وجہ سے آپ کی گاڑی پہلے سے پارک شدہ گاڑی کے پیچھے پارک کی جائے گی۔
متبادل پارکنگ ڈھونڈنے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے میں نے نا چاہتے ہوئے بھی پہلے سے پارک شدہ گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک کی اور چابی پارکنگ والے کے حوالے کردی۔
بالکل برابر میں گاڑی کھڑی ہونے کی وجہ سے اپنی گاڑی کا دروازہ بمشکل کھولا اور ہسپتال کے استقبالیے سے لیبر روم کا پوچھ کر منزل مقصود پر پہنچا۔ یہاں رش دیکھ کر تو ایسا لگا کہ ہسپتال کے باہر کھڑی گاڑیوں والے سارے یہاں ہی آئے ہوئے ہیں۔ لیبر روم اور آپریشن تھیٹر کے باہر لوگوں کا شدید رش تھا اور یہ سارے ہی آبادی میں ہونے والے اضافے کی خوش خبری سننے کے لیے بے چین ہیں۔
کچھ دیر بعد پھر سے آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ماسک پہنی خاتون نے میری بہن کا نام پکارا جس کے فوراً بعد میری والدہ آپریشن تھیٹر میں چلی گئیں اور چند منٹوں بعد لڑکا ہونے کی خوش خبری لیے باہر آئیں۔
مبارک باد دینے اور وصول کرنے کے بعد انتظار گاہ میں بیٹھے میں نے اپنے برادرِ نسبتی سے پوچھا کہ اس نجی ہسپتال میں کتنا خرچہ آیا؟
جواب میں جو رقم میرے بہنوئی نے مجھے بتائی وہ تقریباً وہی تھی جس کا ذکر چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی تقریروں میں کرتے ہیں کہ آج پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 1 لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے، یعنی کہ آج پاکستان میں 1 لاکھ 17 ہزار کا مقروض بچہ پیدا کرنے کے لیے آپ کے پاس کم از کم 1 لاکھ 17 ہزار روپے ہونے لازمی ہیں۔
6 سے 7 گھنٹوں کے انتظار کے بعد جب نومولود قرض دار ہمارے حوالے کیا گیا تو 28 ہزار ارب روپے کے مقروض پاکستان میں نانی اور دادی کے درمیان گُرتی (گھٹی) دینے کے لیے سرد جنگ شروع ہوئی جس میں امریکا کی طرح دخل اندازی کرتے ہوئے نرس نے خبردار کردیا کہ بچے کو صرف ماں کا دودھ پلایا جائے، گُرتی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جواب میں پارکنگ والے نے بڑے غرور سے کہا کہ کیا صرف میڈیا والوں کے ذرائع ہوتے ہیں؟
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com