نقطہ نظر

نگری نگری پھرا مسافر: سندھ کی تسکین کے لیے اک دعا

ابوبکر شیخ کی کتاب کی بنیادی توجہ ماحولیات اور اس کی تباہی ہے مگر کئی مضامین تاریخی واقعات اور شخصیات پر بھی ہیں۔

ابوبکر شیخ کی پہلی کتاب 'نگری نگری پھرا مسافر' پڑھنے والوں میں دُکھ اور افسوس کے ایسے جذبات جگا دیتی ہے جو ان کے دلوں میں گہرائی تک پیوست ہوجاتے ہیں۔

دُکھ کے اس احساس کو جذب نہ کر پانا ناممکن ہے جس کی وجہ ابوبکر شیخ کا اثرانگیز اور شاعرانہ طرزِ تحریر ہے۔ آپ اس شاعرانہ طرز کو ہر صفحے پر پائیں گے اور جیسے جیسے آپ پڑھتے جائیں گے، یہ آپ کے ذہن میں تصویریں بناتا جائے گا۔

اداسی کا یہ احساس ان قارئین کے لیے اور بھی شدید تر ہوجاتا ہے جو وہ مناظر خود دیکھ چکے ہیں جن پر صاحبِ کتاب ماتم کناں ہیں۔

کوئی ایسا شخص جو 4 دہائی قبل انڈس ڈیلٹا کی سرزمین پر گھوما پھرا ہو اور اس زمین کو اس وقت سے جانتا ہو جب ڈیموں کی تعمیر نے کوٹری ڈاؤن اسٹریم کو برباد نہیں کیا تھا، اس کے لیے تباہی کا یہ احساس کافی حقیقی ہے۔

کتاب کا سرورق

اور یہ اس وقت دہرا ہوجاتا ہے اگر پڑھنے والا پچھلی نصف صدی میں بار بار کبھی انتہائی زرخیز زمین تک آتا رہا ہو اور اسے سمندر کے اندر جاتا دیکھتا رہا ہو۔ 19ویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندوں نے نشاندہی کی تھی کہ ڈیلٹا کی سرزمین زراعت کے حوالے سے اپنے پڑوسی علاقوں میں سب سے زیادہ زرخیز تھی۔

آج کہانی بالکل مختلف ہے۔ آج یہ غربت، محرومی اور بھوک کی داستان ہے۔

اس کتاب میں موجود مضامین گزشتہ چند سالوں میں ڈان کی اردو ویب سائٹ کے لیے لکھے گئے ہیں۔ لکھاری کی معلومات کی گہرائی اپنی آبائی زمین لاڑ یا زیریں سندھ میں 3 دہائیوں کے سفر اور تاریخ میں گہری دلچسپی کے باعث ہے۔

اچھڑو (سفید) تھر سے گوڑی مندر اور قریبی بندرگاہی شہر پاری نگر جو کبھی نہایت شاندار تھا اور جس کے کھنڈرات (جو کہ 1980ء کی دہائی کے اواخر تک نظر آتے تھے)، اب قریبی شہر ویرا واہ کے رہائشیوں کے پیروں تلے موجود ہیں، تک کا سفر کرنے کے بعد لکھاری شمال میں ٹیکسلا کی جانب نکل جاتے ہیں۔

ابوبکر شیخ کو ٹیکسلا کے دوسرے شہر سرکپ کے کھنڈرات اور جولیاں درسگاہ کی پُرسکون تنہائی میں بھی گھر جیسا احساس ہوتا ہے مگر ٹھٹہ، بدین اور دیگر آبی علاقے مثلاً سانگھڑ کا مکھی علاقے انہیں واپس سندھ تک لے آتے ہیں۔

جب ہم کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں دریائے سندھ کے بہاؤ میں زبردست کمی کے باعث سمندر کے آگے بڑھنے سے ہونے والی تباہی کے بارے میں پڑھتے ہیں تو یہ ماتم کنائی اور بھی شدید ہوجاتی ہے۔

ابوبکر شیخ

کیٹی بندر، جاتی، مغلبھیں اور دیگر دیہات جیسی ایسی جگہیں جن کا نام باقی کے پاکستانی تو دُور کی بات بہت سارے سندھیوں نے بھی نہیں سنا ہوگا، وہاں کے متواتر دورے کرکے ابوبکر شیخ وہاں زندگی اور مال و متاع کی تباہی کی داستان لکھتے ہیں؛ جہاں کبھی کپاس کی فصلیں لہلہاتی تھیں اور چاول کی ایک درجن سے زائد اقسام اُگا کرتی تھیں، اب وہاں زمینوں میں صرف چمکتا ہوا نمک دکھائی دیتا ہے۔

ڈیلٹا کی نیلے اور میٹھے پانیوں والی جھیلیں جن کے گرد ناریل اور آم کے درخت 1980ء کی دہائی کے اواخر تک حصار باندھے کھڑے نظر آتے تھے، اب تقریباً برباد ہوچکی ہیں۔ لیکن اگر انسان کے بنائے گئے ڈیموں نے ڈیلٹا کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا تو وہیں پچھلی 3 دہائیوں میں بار بار آنے والے سمندری طوفانوں نے بھی ان میٹھی جھیلوں کو مردار اور نمک آلود تالاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لکھاری براہِ راست 'موسمیاتی تبدیلی' کا نام تو نہیں لیتے لیکن جب وہ کہتے ہیں کہ ایسے طوفان مزید متواتر اور شدید ہوتے جائیں گے، تو ان کا اشارہ اسی جانب ہوتا ہے۔

ابوبکر شیخ کی کتاب کی بنیادی توجہ ماحولیات اور اس کی تباہی ہے مگر کئی مضامین تاریخی واقعات اور شخصیات پر بھی ہیں۔ مکلی کی پہاڑی پر کئی لوگ جام نظام الدین سموں کے پُرشکوہ مقبرے کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے مگر کچھ ہی لوگ اس بادشاہ کی حیثیت و رتبے کے بارے میں جانتے ہیں جنہیں چچ کے بعد سندھ کا عظیم ترین حکمران ہی کہا جا سکتا ہے۔

پاس ہی نظام الدین کے لے پالک بیٹے، ان کی فوج کے جنرل اور بااصول شخصیت مبارک خان عرف دولہا دریا خان بھی مدفون ہیں جن کی اسی جذبے کے ساتھ تکریم کی جاتی ہے۔ ابوبکر شیخ کی کتاب سے ہم ارغونوں کے ہاتھوں دولہا دریا خان کے سفاکانہ قتل کے بارے میں جانتے ہیں جنہیں انہوں نے کچھ عرصہ قبل سبی کے میدانِ کارزار میں شکست دی تھی۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہمیں عزیز رکھنا چاہیے، اور کیوں نہ ہو؟ سندھی تاریخ کی ان 2 قابلِ قدر اور روشن شخصیات کا تذکرہ 17ویں صدی کے اوائل میں تحریر کی گئی معصوم شاہ کی تاریخ جیسے ذرائع میں ہی ملتا ہے۔ ایک عام قاری 15ویں صدی کے ان ہیروز کے بارے میں صرف اب جان سکتا ہے۔

اسی طرح ہماری ملاقات میر غلام محمد تالپور سے ہوتی ہے، ایک ایسے بے مثال وڈیرے (زمیندار) جو ہر کسی کے لیے تعلیم کے حامی تھے اور جنہوں نے اپنے وسائل سے ٹنڈو باگو میں لارینس مدرسہ (اب گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول) کی بنیاد رکھی۔ 1932ء میں اس نیک شخص کی وفات کے ایک طویل عرصے بعد اس اسکول کو حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا مگر اسے اس کے بانی کا نام دینے کی زحمت نہیں کی۔ یہ کام مقامی لوگوں پر چھوڑ دیا گیا جو اسے اب بھی میر غلام محمد ہائی اسکول کے نام سے جانتے ہیں۔

نگری نگری پھرا مسافر کی جلد میں مقید صفحات پر موجود 50 کہانیاں مجموعی طور پر اداس ہیں۔ مگر یہ اداسی بلاوجہ نہیں ہے۔ سوچ اور فکر رکھنے والے ہر شخص کو ایسا ہی محسوس کرنا چاہیے۔ ہم جیسے وہ لوگ جو مرحوم آدم پٹیل اور 80ء کے پیٹے میں موجود مائی متو سے واقف نہیں ہے؟ آدم پٹیل، ایک صاحبِ ثروت زمیندار جو چاول اور گندم کی اپنی فصلوں تک ڈیموں کی وجہ سے دریا کا میٹھا پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے غربت میں اس دنیا سے چلے گئے۔ اور پھر مائی متو جن کے دیہات کو آگے بڑھتے سمندر نے روند ڈالا۔ ہم اس شان و شوکت کے بارے میں جانتے ہی نہیں جو کبھی موجود تھی اور اب ختم ہوچکی ہے۔ وجہ؟ یہ کہانیاں مرکزی دھارے کے میڈیا میں کہیں بھی نہیں سنائی جاتیں۔

ابوبکر شیخ کی کتاب پڑھنے کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ ان جیسے علم رکھنے والے دیسی لکھاریوں کی اپنی سرزمین کے بارے میں تحریروں کا قحط کیوں ہے؟

افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں سفرنامہ لکھنے کا مطلب ایک ایسی تحریر لکھنا بن کر رہ گیا ہے جیسے چوتھی جماعت کا کوئی طالبِ علم یہ لکھے کہ اس نے گرمی کی چھٹیوں میں کیا کیا۔

ابوبکر شیخ کی کتاب قدرت سے محبت کرنے والوں اور عام افراد، ہر کسی کے کتب خانے میں ایک گراں قدر اضافہ ہوگی۔ اگر یہ کوئی اور ملک ہوتا تو اس کتاب سے ہمیں ان چیزوں کو بچانے کے لیے رہنمائی ملتی جو ہم تیزی سے گنوا رہے ہیں، پھر چاہے وہ قدرتی ہو یا تاریخی ورثہ۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک ضروری مطالعہ ہے جو اپنی آبائی سرزمین کے لیے لکھاری کے احساسات کو خود محسوس کرنا چاہتے ہیں۔

مگر خدشہ ہے کہ جو لوگ اہمیت رکھتے ہیں، انہیں شاید اس اہم کتاب کی موجودگی کا علم بھی نہ ہو۔ یہ کتاب بالآخر سندھ کی تسکین کے لیے اک دعا بن کر رہ جائے گی اور یہ ایک بڑا سانحہ ہوگا۔


کتاب: نگری نگری پھرا مسافر

مصنف: ابوبکر شیخ

پبلشر: سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور

آئی ایس بی این: 9693531426

صفحات: 272


یہ مضمون ڈان اخبار کے بکس اینڈ آتھرز سیکشن میں 14 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

سلمان رشید

لکھاری رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔