انڈس بلوز: پاکستان میں دم توڑتے سازوں کی داستان
سال 2014ء کی سردیاں تھیں۔ جواد شریف اور میں ایک پروڈکشن ہاؤس میں ساتھ کام کر رہے تھے۔ میں اس ادارے میں اسکرپٹ رائٹر تھا اور جواد وہاں ایک دستاویزی فلم کی ہدایت کاری کر رہا تھا۔
ان دنوں اس فلم کی ایڈیٹنگ چل رہی تھی اور اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو وہ فلم معروف پاکستانی کوہِ پیما ثمینہ بیگ کی ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کرنے کی کہانی پر مبنی تھی۔
جواد کے فن کو ایک ناظر کی حیثیت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی کہانی میں موجود جزیات کو سمجھنے میں ملکہ حاصل ہے۔ یہی ایک چیز اس کی ڈائریکشن کو ممتاز کرتی ہے۔ آپ اسے ’کے ٹو: دا فُٹ پرنٹ آف انویزیبل مین‘ (K2 and the Invisible Footmen) میں دیکھ سکتے ہیں۔
وہ اپنی ہدایات میں بننے والی فلم میں جزیات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس کا کام ایسا ہے کہ بہت سے منظر جزو سے کل کی جانب پھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ کونے کھدرے سے نکل کر منظر کو کھوجتی ہے اور پھر روشنی کے ساتھ ساتھ ناظر کو جزو، جزو جوڑ کر پورا منظر دکھاتی ہے۔
پڑھیے: وہ پاکستانی ہارر فلمیں جنہیں فلم بینوں نے بہت پسند کیا
ایسے ہی ایک اور تخلیق کار کا نام اریب اظہر ہے۔ وہ جب گاتا ہے تو اس کی آواز سمندر جیسی وسعت کے ساتھ آپ کے وجود کے ارد گرد پھیل جاتی ہے جسے آپ اپنی سہولت سے اپنے آپ میں جذب کرتے جاتے ہیں اور اپنے پیروں کو تھرکنے سے اور بازوؤں کو پھیل کر جھومنے سے روک نہیں پاتے۔ اردگرد کا سارا منظر دھمال ڈالنے لگتا ہے۔
میں اسے اپنی خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں افراد میرے قریبی دوست ہیں۔ یہ سال 2014ء کی سردیاں تھیں جب میں اور جواد اریب اظہر کے ایف ایٹ والے گھر میں آئے تھے۔ جواد اریب سے پہلی بار ملا تھا۔ وہاں پاکستان میں بننے والی فلموں کے موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی جب جواد نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ان سازوں کو اور ان کے بنانے والوں کو ڈاکیومنٹ کرنا چاہتا ہے جو اپنی بقاء کے آخری مرحلے میں ہیں۔ وہ ساز جو اگلی نسل تک منتقل نہیں ہو پائیں گے۔