چین میں گزارے گئے 4 دن، 1987 سے 2018 تک
3 دہائی پہلے کی دھندلی تصویر میں ایک ہی چہرہ نمایاں طور پر یادوں میں محفوظ ہے۔ آغا حسن عابدی، بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کے بانی جنہوں نے 80ء کی دہائی کی ابتدائی برسوں میں ہی ادراک کر لیا تھا کہ یہ صدی چین کی ہوگی۔
میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ مغرب نے آغا صاحب کے ساتھ کیا سُلوک کیا۔ بے بسی اور گمنامی میں کراچی میں اُن کی رحلت ایک المیہ ہے۔ ایک عظیم وژنری جس نے 1982 میں بی سی سی آئی کی بیجنگ میں برانچ کھولی اور 1987 میں چین میں پہلی ایڈورٹائزنگ مارکیٹنگ کانگریس کا انعقاد کیا۔ بیجنگ میں باہر کی دنیا کے لیے یہ پہلی کانفرنس تھی۔
ایک نو آموز صحافی کی حیثیت سے مجھے اس میں شرکت کا موقع ملا۔ بیجنگ کی وسیع و عریض شاہراہوں پر سائیکلوں کا ایک سمندر رواں دواں تھا، اور بلند و بالا عمارتوں کی تعداد اتنی تھی کہ با آسانی انگلیوں میں گنی جا سکتی تھی۔ فٹ پاتھوں پر سینکڑوں کی تعداد میں چینی گھٹنوں تک پائنچے چڑھائے اونگھ رہے ہوتے تھے۔ مشکل سے ہی کوئی چینی ملتا جسے انگریزی زبان سے آگاہی ہوتی، اور ہاں بہر حال اُس وقت ماؤزے تنگ کا کمیونسٹ چین تھا، جن کے تیانمن اسکوائر کے بیچ پُر شکوہ مزار کے سامنے چینیوں اور غیر ملکیوں کی ایک لمبی قطار چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی ہوتی تھی۔
31 سال بعد جب تیانمن اسکوائر کے ایک کونے میں کھڑا نئے چین کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کو سڑکوں پر جدید گاڑیوں اور آسمان سے چھوتی عمارتوں کے فٹ پاتھوں پر خوش و خرم چینیوں کو تیز تیز چلتے دیکھ رہا تھا تو مجھے اس منظر نے ایک حیرت کدے میں ڈال دیا۔ نیا مستحکم چین اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔