بلدیاتی انتخابات میں بلّے کے لیے مشکل وکٹ تیار ہوگئی؟
عام انتخابات کو ہوئے 3 ماہ گزر چکے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں 10 ماہ سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے۔ عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ملک کی سب بڑی جماعت بن کر ابھری اور مرکز کے ساتھ ساتھ 3 صوبوں میں حکومتیں بنائیں۔
خیبر پختونخوا کے عوام نے نہ صرف پی ٹی آئی کو ماضی کے روایت کے برعکس برسرِ اقتدار جماعت کو دوبار اقتدار سونپ دیا بلکہ پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت بھی دی، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکے گی؟
اگر عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور حاصل کردہ نشستوں اور ووٹوں پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا جواب ہے کہ ہاں، پی ٹی آئی باآسانی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔
لیکن ضمنی انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج نے اس ’ہاں‘ کو تھوڑا مشکوک بنادیا ہے۔ ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کے اتحاد کی وجہ سے پی ٹی آئی جیتی ہوئی نشستیں ہار گئی ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد بلدیاتی انتخابات میں بھی برقرار رہتا ہے تو پی ٹی آئی کے لیے بلدیاتی انتخابات میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
چنانچہ ضروری ہے کہ حالیہ عام انتخابات کے نتائج کا نہ صرف بحیثیتِ مجموعی جائزہ لیا جائے، بلکہ اضلاع کی سطح پر حکومتی جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے حاصل کردہ نشستوں اور ووٹوں کاجائزہ لیا جائے، جس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے باآسانی ایک رائے قائم کی جاسکتی ہے۔
عام اتنخابات کے نتائج
خیبر پختونخوا میں 26 اضلاع ہیں اور وہاں 99 صوبائی نشستوں پر براہِ راست اننخابات ہوتے ہیں۔ عام انتخابات میں 2 نشستوں PK-78 اور PK-99 پر انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ PK-24 پر خواتین کی 10 فیصد سے کم ووٹننگ کی وجہ سے الیکشن کمشن نے نتائج روک دیے۔
اس کے علاوہ مجموعی طور پر 96 حلقوں میں سے پی ٹی آئی نے 66، متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) نے 10، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے 6، آزاد امیدواروں نے 5 ، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 5 اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔