پاکستان

شوکت عزیز صدیقی نے برطرفی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، میرے الزامات پر کوئی انکوائری نہیں کی گئی، درخواست گزار کا موقف
| |

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنی بر طرفی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ برطرفی ضابطے کی کارروائی کے بغیر عمل میں لائی گئی۔

درخواست میں ان کا مزید کہنا تھا کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، میرے الزامات پر کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ 11 اکتوبر کو صدر مملکت نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی سفارش پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو متنازع تقریر کے معاملے پر انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا

سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اداروں کے خلاف متنازع تقریر کے معاملے پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج ہیں جن کے خلاف ملک کے اہم اداروں کے خلاف متنازع بیان دینے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر تھی۔

یاد رہے کہ 21 جولائی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) عدالتی امور میں مداخلت کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ہمارے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرکے کہا تھا کہ ہم نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دینا‘۔

اپنے خطاب کے دوران بغیر کسی کا نام لیے انہوں نے الزام لگایا کہ ’مجھے پتہ ہے سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لے کر جاتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا احتساب عدالت پر ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا‘۔

مزید پڑھیں: فوج کی اعلیٰ قیادت خفیہ اداروں کو لگام دے، جسٹس شوکت صدیقی

اس کے بعد 22 جولائی کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے متنازع بیان کا نوٹس لے لیا تھا۔

چیف جسٹس نے واضح کیا تھا کہ ’پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں‘، تاہم انہوں نے معاملے کا جائزہ لینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

22 جولائی کو ہی پاک فوج نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ریاستی ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ریاستی اداروں پر الزامات: جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو شوکاز نوٹس جاری

جس کے بعد یکم اگست 2018 کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 2 ریفرنسز زیر التوا ہیں، جن میں ایک ریفرنس بدعنوانی سے متعلق ہے، جو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ایک ملازم کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف پہلا ریفرنس سی ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر انور علی گوپانگ نے دائر کیا تھا جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کے لیے 80 لاکھ روپے خرچ کیے حالانکہ وہ یہاں یہ رقم خرچ کرنے کے حق دار نہ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کے بیان کا جائزہ لیں گے، چیف جسٹس

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف دوسرا ریفرنس گزشتہ برس ہونے والے فیض آباد دھرنے میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں ان کے ریمارکس سے متعلق ہے، جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سوالات اٹھائے تھے، یہ ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم خالق نے دائر کیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دونوں ریفرنسز کو کھلی عدالت میں سننے کی درخواست دی تھی جس پر کارروائی ابھی جاری تھی۔

رواں سال 21 جولائی کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کیا تھا، اس خطاب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی عدلیہ کے امور میں مداخلت کررہی ہے، خفیہ ادارے والے عدالت کے بینچ بنانے کے معاملے میں مداخلت کررہے ہیں۔

یہ بات جسٹس صدیقی نے اس وقت کہی جب شریف خاندان کی پاناما اپیلوں پر ہائیکورٹ میں سماعت ہورہی تھی اور بینچ بھی تبدیل ہوا تھا۔