میں نے اپنے دوست کو خط کیوں نہیں لکھا؟
ایک دوست نے آج کے اس جدید دور میں خواہش ظاہر کی کہ میں اُسے خط لکھوں۔ اب ہمارا شمار روایتی طرز اِبلاغ سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھنے والوں میں ہوتا ہے، یہی سبب ہے کہ بطور طالب علم ’مطبوعہ ذرائع اِبلاغ‘ میں ہماری دلچسپی بہت زیادہ ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ کسی بھی پیغام یا متن کا الفاظ کے ساتھ ساتھ اپنی کسی طبعی (Physical) حالت میں بھی وجود رکھنا، اپنے گہرے اِبلاغی اور نفسیاتی اثرات رکھتا ہے، بنسبت کسی برقی رو سے روشن ہونے والے ’پردے‘ یا شیشے کے۔
بھئی دیکھیے نا، جب آپ ایک ہی ’آل ابلاغ‘ پر آپ اپنے پیاروں کے ’نامے‘ بھی پڑھ رہے ہیں، اسی پر دفتری مراسلت بھی کر رہے ہیں اور بہت سے ناپسندیدہ لوگوں سے بھی ہم کلام ہو رہے ہیں۔ اپنے مذہب کا مطالعہ بھی اسی پر ہے تو تفریحی سہولیات بھی اسی کے پردے پر جلوہ گر ہو رہی ہیں۔
غور کیجیے! اگر یہ تمام امور کسی کاغذ پر رونما ہوتے تو یقیناً بہت سے کاغذ ہمیں بے حد عزیز ہوتے، بہت سے صحیفے مقدس خانے میں ہوتے تو بہتیرے اہم دستاویز کے طور پر رکھے جاتے، بہت سے ناپسندیدہ کہہ کر پَرے کرتے اور جو ہٹانے ہوتے تلف کردیے جاتے۔ اگرچہ یہ کام ہم اپنے اِبلاغی آلے پر بھی کرتے ہیں، اب خود ہی فیصلہ کیجیے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے!
بات خط لکھنے کی ہو رہی تھی اور میں لگا لیکچر دینے، تو سنو میرے دوست!