پاکستان

کراچی: پاکستان کوارٹرز خالی کرانے کے خلاف احتجاج، پولیس کا لاٹھی چارج

پولیس کی کارروائی سے متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نوٹس لے لیا، پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم
|

کراچی میں پاکستان کوارٹرز میں سرکاری رہائشگاہیں خالی کرانے کے لیے ممکنہ آپریشن کے خلاف مکین سراپا احتجاج بن گئے، جنہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹرکینن اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔

شہر قائد کے علاقے گارڈن سے متصل پاکستان کوارٹرز کو خالی کرانے کے لیے عدالتی حکم پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی، جہاں مکینوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔

خیال رہے کہ رواں سال جولائی میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پاکستان کوارٹرز، مارٹن کوارٹرز، جمشید کوارٹرز، کلٹن کوارٹرز، فیڈرل کیپیٹل ایریا اور وفاقی حکومت کے ملازمین کی دیگر رہائش گاہوں کو غیر قانونی قابضیں سے خالی کرایا جائے، جس کے بعد سے متعدد مرتبہ پولیس نے غیر قانونی قابضین سے جگہ خالی کرانے کی کوشش کی تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی میں 4 ہزار ایک سو 68 سرکاری کوارٹرز پر قبضے کا انکشاف

اسی عدالتی حکم پر عمل درآمد کے لیے جب آج پولیس ممکنہ آپریشن کے لیے پاکستان کوارٹرز پہنچی تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا—فوٹو: ڈان نیوز

احتجاج کرنے والوں میں خواتین، مرد اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے پولیس کو ممکنہ آپریشن سے روکنے کے لیے پتھراؤ کیا، اس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور لاٹھی چارج کیا، جس سے متعدد افراد زخمی بھی ہوگئے۔

پولیس ترجمان کے مطابق مشتعل ہجوم نے پولیس پر حملہ کیا جس سے 4 اہلکار زخمی ہوئے، زخمی اہلکاروں میں محمد رضوان، منیر احمد، زمان عباس اور تنویر احمد شامل ہیں۔

علاقہ مکینوں کے احتجاج پر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی علاقہ مکینوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان کوارٹرز پہنچے اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے فوری طور پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین کے احتجاج کے باعث گارڈن سے البیلا چوک تک نشتر روڈ پر ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوئی۔

وزیر اعلیٰ سندھ کا نوٹس

دوسری جانب کشیدہ صورتحال پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو کارروائی روکنے کا حکم دیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے ساتھ اس طرح کا رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔

اس سارے معاملے پر ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ حکومت کے ترجمان مرتضٰی وہاب کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے پولیس کی کارروائی کا نوٹس لیا اور کہا کہ قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوارٹرز سندھ حکومت کی نہیں وفاقی حکومت کی ملکیت ہے اور انہیں خالی کرانے کا حکم بھی عدالت عظمیٰ کی جانب سے دیا گیا تھا، تاہم پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کا استعمال درست نہیں ہے۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ معاملات کو پر امن طریقے سے حل کیا جائے لیکن عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، جس کے لیے ایسا لائحہ عمل نکالنا ہوگا، جس سے مکینوں کو بھی پریشانی نہ ہو اور عدالتی حکم پر عمل درآمد بھی ہوجائے۔

پولیس آپریشن روک دیا گیا، ایڈیشنل آئی جی

ادھر ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا کہ سندھ حکومت کے احکمات پر پاکستان کوارٹرز میں آپریشن روک دیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی سی آئی اے امین یوسف زئی اور ڈی آئی جی شرقی عامر فاروقی پر مشتمل کمیٹی بنائی جارہی ہے۔

کوارٹرز خالی کروا کر اربوں کی ہاؤسنگ اسکیمز بنانا چاہتے ہیں، فاروق ستار

قبل ازیں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بھی مکینوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ان کے ہمراہ موجود رہے۔

کوارٹرز خالی کرانے کے لیے عدالت نے حکم دیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز

مکینوں کے احتجاج پر فاروق ستار نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلڈر مافیا اور وزارت ہاؤسنگ کے افسران کی ملی بھگت سے یہ سب ہورہا ہے کیونکہ وہ یہاں اربوں روپے کی ہاؤسنگ اسکیمیں بنانا چاہتے ہیں، جبھی یہ کوارٹرز خالی کرانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 50 لاکھ نئے مکانوں کی بات ہورہی اور یہاں لوگوں کو گھروں سے در بدر کیا جارہا ہے، کیا یہ نیا پاکستان ہے؟

یہ بھی پڑھیں: فاروق ستار کا 4 ہزار سرکاری ملازمین کو رہائش گاہیں دینے کا مطالبہ

فاروق ستار نے کہا کہ اس معاملے پر میری صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور گورنر سندھ عمران اسمٰعیل سے بات چیت ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ اس معاملے کا حل نکالیں گے، اس کے باوجود یہ کارروائی کیسے ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بنانے والوں پر جس طرح ظلم کیا گیا یہ سب ذمہ داری موجودہ پولیس افسر پر ہوتی ہے اور یہ علاقہ مقبوضہ پاکستان کوارٹرز ہوگیا ہے، یہ سب کچھ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ہی سازش ہورہی ہے۔

ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات کے باوجود پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اور مکینوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیل فائر کیے، لہٰذا میں مراد علی شاہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس ظلم کو فوری طور پر رکوایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے حلقہ بندیوں میں سندھ کی شہری آبادی کم دکھائی گئی، اب ظلم کیا جارہا ہے، ہم یہ ظلم برداشت نہیں کریں گے اور وزیر اعلیٰ ہاؤس اور کراچی پریس کلب جا کر احتجاج کریں گے۔

واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ کراچی میں 4 ہزار 168 سرکاری کوارٹرز پر قبضہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مارٹن کوارٹرز میں 639 اور پٹیل پاڑہ میں 301 مکانوں پر قبضہ ہے، اسی طرح گارڈن اور پاکستان کوارٹرز میں 49 مکانوں پر قبضہ ہے۔

اس معاملے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما میدان میں آئے تھے اور کہا تھا کہ وہ ان سرکاری کوارٹز کے مکینوں کو لیز دلوائیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت نے کہا تھا کہ ’میرا ایک ہی مقصد ہے کہ ایف سی ایریا، مارٹن کوارٹرز والوں کو لیز ملے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اگرایف سی ایریا کوارٹرز متاثرین کو گھر نہ دلواسکا تو استعفیٰ دے دوں گا۔

یہ سندھ حکومت کی جگہ نہیں ہے، وزیر اعلیٰ

بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کوارٹرز میں آپریشن بند کرنے کے احکامات فوری طور پر دیے، عدالت کے ایسے احکامات نہیں ہونے چاہیے جس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو لیکن ہم عدالتی حکومت کو پڑھ کر ہی آگے کی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سندھ حکومت کی جگہ نہیں ہے بلکہ وفاقی حکومت کی جگہ ہے لیکن یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور صورتحال کو دیکھ کر سپریم کورٹ جاسکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹاسک فورس کچھ نہیں ہے، ان کو اتنی اہمیت نہیں دیں لیکن اگر سندھ میں وفاقی حکومت کام کرنا چاہے گی تو مجھے خوشی ہوگی۔

مقدمے میں فاروق ستار سمیت متعدد افراد نامزد

سولجر بازار تھانے میں پاکستان کوارٹرز میں ہنگامہ آرائی کا مقدمہ درج کرلیا گیا جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار سمیت متعدد افراد کو نامزد کیا گیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ مقدمے میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کی دفعات شامل ہیں۔

سولجر بازار پولیس کے مطابق مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

اس ضمن میں بتایا گیا کہ مقدمہ درج ہونے کے باوجود گرفتاریوں کے لیے چھاپے نہیں مارے گئے۔