نقطہ نظر

پاکستان کا ہزاروں سال پرانا مصور شاکر علی

ہزاروں سال پرانے فن کو آگے بڑھانے والے شاکر علی ایبسٹریکٹ انداز پسند کرتے تھےاور ہمارے دیسی نقادوں کو اس کا صفر فہم تھا

پاکستان کا ہزاروں سال پرانا مصور شاکر علی

حسنین جمال

شاکر صاحب کو ہم نے بڑی دیر سے دریافت کیا حالانکہ وہ پچھلے 30 ہزار سال سے ہمارے ہی درمیان پینٹ کر رہے تھے۔ ہمارے لوگ ان میں مغربی مصوری کے اثرات ڈھونڈتے رہے اور وہ خود آخری وقت تک اپنی سہولت کے مطابق جو دل کیا اسے پینٹ کرتے رہے۔

18ویں صدی کے آخر میں کچھ ایسے ہوا کہ ایک 8 سالہ ننھی سی بچی اپنے ابّا کے ساتھ لالٹین تھامے اسپین کے غاروں میں قیمتی پتھر اور فوسلز ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ وہ دونوں اپنے کام میں اتنے مگن تھے کہ نیچے زمین پر ہی دیکھتے دیکھتے معمول سے تھوڑا آگے نکل آئے۔ یہاں بچی نے چھت پر جو نظر ڈالی تو اسے لگا جیسے ابھی کل کوئی ادھر تصویر بنا کر گیا ہے۔ ایکدم شوخ سرخ رنگوں کے بھینسے، ہرن اور پتا نہیں کیا کیا ادھر غار کی چھت اور دیواروں پر بنا ہوا تھا۔ بچی کے ابّا نے باہر آتے ہی مقامی ماہرین سے رابطہ کیا اور چند روز میں دنیا بھر کے شوقینوں تک یہ خوشخبری پہنچ گئی کہ انسانی تاریخ کی قدیم ترین پینٹنگز دریافت ہوچکی ہیں۔

وہ تصویریں جو التامیرا (اسپین) کے غاروں میں ہمارے اجداد نے آج سے 30 سے 32 ہزار سال پہلے بنائی تھیں، ان کے رنگ بے حد چمکدار تھے۔ جس طرح ماہرین کی عادت ہے، بڑے عرصے تک تو وہ باقاعدہ خوار ہوتے رہے کہ اگر یہ تصویریں اتنی پرانی ہیں تو موسمی اثرات یا پانی یا کسی طوفان سے کبھی متاثر کیوں نہیں ہوئیں؟ پھر جب تھوڑی سائنس لڑائی اور ٹیسٹ وغیرہ کر لیے تب جا کر انہیں تسلی ہوئی کہ غاروں پر نقوش واقعتاً قدیم وقتوں میں انسان نے ہی چھوڑے ہیں۔

مزید پڑھیے: خالد اقبال: ایسا مست آدمی جو زندگی میں کسی چیز سے متاثر نہیں ہوا

دنیا بھر کے سیاحوں نے اسپین کی ان غاروں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ ابھی پچھلی صدی تک لوگوں کے درمیان زبردست دلچسپی برقرار رہی اور عوام نے بڑی تعداد میں غاروں کی سیر کی۔ پھر یہ ہوا کہ ہر وقت لوگوں کا ہجوم اندر رہنے لگا اور ان کی سانسوں میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ نے ان تصویروں کے رنگ گہنا دیے جنہیں 30 ہزار سال میں کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔

جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ ایک دن میں چند مخصوص لوگ غار وزٹ کرسکیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 3، 3 سال کی ایڈوانس ٹکٹیں فروخت ہوگئیں اور لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے پائے گئے۔ بالآخر 30 سے 35 سال پہلے التامیرا کے غاروں میں سیاحوں کا داخلہ بند ہوگیا۔ تصویریں کیمیکلز وغیرہ کی مدد سے بچا کر محفوظ کی گئیں اور شائقین کے لیے ویسے ہی غار اور لوازمات قریب بنا دیے گئے کہ جسے دیکھنا ہے ادھر آجائے۔

شاکر صاحب اچھے دنوں میں التامیرا کے غار دیکھ کر آچکے تھے اور باقاعدہ ان کے رنگوں اور فن سے متاثر تھے۔ تب وہاں سیاح آرام سے جاسکتے تھے۔ پھر انہوں نے جنوبی ہندوستان میں اجنتا اور ایلورا کے غار بھی دیکھ رکھے تھے اور قدیم ہندو آرٹ بھی ان کے ذہن و دل پر سوار رہا۔ لہٰذا شاکر صاحب نے اسپین اور ہندوستان کی 80 ہزاروں سال پرانی روایت کا بھاری پتھر اٹھایا۔ تھوڑی انسپریشن اپنے دور کے مشہور مغربی مصوروں پال کلی، ماتیس اور موڈیگلیانی سے لی، مشرقی لگاؤ کے شوخ رنگ التامیرا، اجنتا، ایلورا اور کانگڑہ اسکول والوں سے متاثر ہوکر پکڑے اور کام شروع کردیا۔

شاکر صاحب اچھے دنوں میں التامیرا کے غار دیکھ کر آچکے تھے اور باقاعدہ ان کے رنگوں اور فن سے متاثر تھے

30 ہزار سالہ فن سے جو تحریک دل میں پیدا ہوئی تھی اسے آگے بڑھانے والے شاکر علی ایبسٹریکٹ انداز پسند کرتے تھے اور ہمارے دیسی نقادوں کو اس کا صفر فہم تھا۔ وہ چیختے تھے کہ یہ اپنی جڑوں سے کٹا ہوا ہے، اس کی مصوری سراسر مغربی ہے، یہ گوروں کی نقل کرتا ہے، یہ نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) میں بھی بچوں کو فضول میں کیوبزم والوں کی نقالی پر لگا رہا ہے اور شاکر صاحب سکون سے اپنا کام کیے جاتے تھے۔

پکاسو نے کسی سے کہا تھا کہ میں نے ایبسٹریکٹ اس وقت بنانا شروع کیا جب میں پینٹنگ پر عبور حاصل کرچکا تھا۔ یعنی عام مصوری کی معراج پر پہنچ کر اسے یہ بات سمجھ آئی کہ بہت سی باتیں ایک سادے لینڈ اسکیپ، پورٹریٹ یا رئیلسٹک تصویر میں نہیں دکھائی جاسکتیں۔ آپ کہانی تو مجسم کرسکتے ہیں خیال مجسم نہیں ہوسکتا۔ تب اس نے ایبسٹریکٹ کام شروع کیا۔ شاکر صاحب بھی خیال کے گائیک تھے۔ گائیکی، شاعری، مصوری، جدھر بھی خیال آتا ہے تو اس کا نتیجہ خودبخود ایبسٹریکٹ ہوجاتا ہے اور جب سامنے تجرید سمجھنے والا بیٹھا ہو تو یہ تینوں فن آپس میں جذب بھی ہوجاتے ہیں۔ خیر، یہ منظرنامہ تھا!

شاکر علی

ایبسٹریکٹ کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ سی بات دیکھتے ہیں۔ استاد اللہ بخش سے کسی نے پوچھا کہ اگر کبھی دوبارہ زندگی ملی تو آپ کیا کرنا پسند کریں گے؟ بولے بس ایک خواہش ہے، دوبارہ زندگی ملی تو گرمی کے موسم کی ایک ایسی تصویر بناؤں گا کہ سردیوں میں بھی اسے دیکھ کر گرمی لگے اور سردیوں کا ایسا کوئی کینوس بناؤں کہ اگر گرمیوں میں اسے دیکھا جائے تو سردی لگنی شروع ہوجائے۔ موسم کو رنگوں میں ڈھالنا کس حد تک ممکن ہے؟ بس یہیں سے خیال شروع ہوتا ہے، اور یہی ایبسٹریکٹ آرٹ کی حد ہے۔

حُسن صرف باضابطہ تصویر میں نہیں ہوتا، وہ لکیروں کی مناسب ترتیب میں بھی ہوسکتا ہے (دیکھو سب رنگ میں اقبال مہدی کے خاکے) وہ رنگوں کے پھیلاؤ میں بھی ہوسکتا ہے (دیکھو احمد پرویز کے فن پارے) اور وہ بہت سارے خالی کینوس میں بھی ہوسکتا ہے (دیکھو شاکر علی کے آخری دور کی تصویریں) تو بس جو موڈ اور خیال کی کرامات کینوس پر بٹھا گیا وہ پھر ہمارا سچا فنکار ہے۔

30 ہزار سالہ فن سے جو تحریک دل میں پیدا ہوئی تھی اسے آگے بڑھانے والے شاکر علی ایبسٹریکٹ انداز پسند کرتے تھے

شاکر علی ایک اکیلے انسان تھے۔ کم عمری میں والدہ فوت ہوگئیں اور اس کے بعد شاکر علی اپنے خول میں واپس چلے گئے۔ اردو پڑھنے والا شاکر علی کو تب دریافت کرتا ہے جب وہ انتظار حسین کی کتابیں پڑھتا ہے، جب وہ شیما مجید کے جمع کیے ہوئے مختلف مضامین پڑھتا ہے، جب وہ سید سبط حسن یا کشور ناہید کو پڑھتا ہے یا پھر جب وہ زاہد ڈار سے بات کرتا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستانی مصوری کی تاریخ، منی ایچر آرٹ اور حاجی محمد شریف

زاہد ڈار اس اجڑی ہوئی ڈار کی آخری کونج ہیں جب یاروں کی تاریخ ساز چوکڑی ہر دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرتی تھی اور سننے والے سنتے تھے اور یاد کرنے والے آج تک یاد کرتے ہیں۔ زاہد ڈار سے ایک دن شاکر علی کی خاموش طبیعت اور ان کے آخری دنوں پر بات چھڑی تو بڑی لمبی گفتگو ہوئی۔ آگے کچھ قصہ ان کی زبانی سنتے ہیں:

شاکر علی

’وہ تو کبھی بھی بات نہیں کرتا تھا۔ بالکل ہی چپ رہتا تھا۔ دوستوں میں بیٹھتا تو بس سننے کے لیے، بات کرتے اسے کم ہی دیکھا ہوگا (یاد آیا، انتظار صاحب نے اپنے ایک انگریزی کالم میں شاکر صاحب کے پاس موجود ایک کتے کا ذکر کیا تھا، وہ بھی ان کے پاس رہ رہ کے ہر وقت مکمل خاموش رہنا سیکھ گیا تھا۔ اس کا کام بس یہ تھا کہ جو مہمان آئے اسے دروازے سے لے کر ان کے بیڈ روم تک لے آئے اور خاموشی سے واپس چلا جائے۔ ایک مرتبہ کسی بہت باتونی دوست نے پوچھا کہ شاکر صاحب آپ کے گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟ آپ کا تو کتا بھی نہیں بھونکتا۔ کہنے لگے، ہاں صاحب، یہاں صرف باہر سے آنے والے بھونکتے ہیں۔ زاہد ڈار کی بات کاٹ کر اپنی ہانکنے کے لیے معافی چاہتا ہوں، مجھے بھول جانا تھا یہ سب پھر۔ تو واپس چلیے)۔

'پہلے تو کچھ نہ کچھ تصویروں میں بنا ہی دیتا تھا، آخری دور میں بس لمبا سا کینوس ہوتا تھا، بالکل خالی، اوپر کہیں ایک دو کبوتر نظر آجاتے تھے، میں بہت ہنستا تھا۔ وہ بمبئی سے کراچی اور وہاں سے لاہور آیا تھا۔ شاید این سی اے کا پرنسپل بننے آیا تھا۔ بہت اچھا وقت گزرا اس کے ساتھ۔ وہ بہت اداس رہتا تھا۔ اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی، جب ہم اکیلے ہوتے تھے تو وہ بہت روتا تھا، وہ مجھ سے پوچھتا تھا، یار تم کیسے گزارا کرتے ہو، تمہاری زندگی میں تو کوئی عورت ہی نہیں، میں تو 60 سے اوپر کا ہوگیا، آج بھی نہیں رہ سکتا۔ میں کہتا تھا بھئی میرا گزارا تو ہوجاتا ہے۔ جب اس کا مکان بن رہا تھا تو نیر علی دادا، میں اور وہ ہم لوگ دوپہر کو وہاں پہنچ جاتے تھے۔ اسے بہت شوق تھا کہ آرٹ کا نمونہ ہو وہ گھر، اس زمانے میں جب ابھی وہ بن ہی رہا تھا تو لوگ نجانے کہاں کہاں سے اسے دیکھنے آتے تھے۔ لوگ حیران ہوتے تھے کہ جو اینٹ جلی ہوتی ہے، جسے ہم ضائع کردیتے ہیں، اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ اکٹھا کرتا ہے اور ان اینٹوں سے مکان بنا رہا ہے۔

'اصل میں اس کی انکم اور کوئی نہیں تھی۔ وہ کالج سے جتنے پیسے کماتا تھا اسی وقت پوری تنخواہ گھر پر خرچ کر دیتا تھا۔ کبھی اینٹیں منگوا لیں، کبھی ٹائلیں آگئیں، کبھی فرنیچر کے نام پر کچھ آگیا، تو سارے پیسے وہ یہاں لگا دیتا تھا لیکن گھر تھا کہ پھر بھی مکمل نہیں ہوتا تھا۔ میں بڑا ہنستا تھا، میں کہتا تھا یار جس رفتار سے تم گھر بنا رہے ہو یہ تمہارا مزار ہی بنے گا۔ وہ بہت چڑ جاتا تھا۔ لیکن اسی طرح ہوا۔ جب گھر بنا تو اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی وہ مر گیا۔ کشور (ناہید) نے مجھے بڑا کہا کہ یہ تمہاری کالی زبان تھی، دیکھ لو اسے رہنا نصیب نہیں ہوا، میں تو ٹھیک کہتا تھا، جس اسپیڈ سے اس نے گھر بنایا تھا، یہی ہونا تھا (ان کی وفات کے بعد وہ گھر حکومت نے خرید کر اسے شاکر علی میوزیم کا روپ دے دیا۔)'

حُسن صرف باضابطہ تصویر میں نہیں ہوتا، وہ لکیروں کی مناسب ترتیب میں بھی ہوسکتا ہے

شاکر صاحب نے اسپین اور ہندوستان کی 80 ہزاروں سال پرانی روایت کا بھاری پتھر اٹھایا

انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہ بہت ڈپریشن میں رہتا تھا۔ عبدالرحمٰن چغتائی کے مرنے پر ایک تعزیتی جلسہ ہوا تو شاکر کو اس کی صدارت کرنی تھی اور کچھ بولنا بھی تھا۔ میں کشور ناہید اور یوسف اس کے گھر گئے تو وہ اپنے نئے گھر کے واحد کمرے میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ شدید اداس تھا۔ کہنے لگا مجھے نہیں جانا، چغتائی مرگیا ہے ایسے ہی میں بھی مرجاؤں گا بس، وہاں جاکر کیا کہوں گا میں۔۔۔ ہم لوگوں نے زبردستی اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور وہاں لے جاکر بٹھا دیا۔ وہ کچھ تقریر کرکے آگیا۔ اگلے ہفتے ہم دونوں کہیں بیٹھے تھے تو اس نے یوسف کامران سے کہا کہ یار مجھے گھر لے جاؤ اپنے، کشور سے کہو کچھ اچھا کھانے کو بنائے۔ یوسف فون کرنے گیا، ہم دونوں حسبِ معمول چپ بیٹھے تھے کہ اچانک میں نے دیکھا اس کا سر آہستہ سے گر رہا ہے، وہ بے ہوش تھا اور گیلا سا لگ رہا تھا۔ میں نے شور مچا دیا کہ اسے ہسپتال لے کر جاؤ۔ ہم لوگ اسے یو سی ایچ میں لے گئے۔

’وہ اگر وہیں رہتا تو شاید بچ جاتا۔ رامے ان دنوں وزیر تھا۔ اس نے اپنے پیار میں اسے وہاں سے میو ہسپتال منتقل کروا دیا۔ اب وہاں میرا کوئی جاننے والا ڈاکٹر ہی نہیں تھا۔ میں اگلے دن صبح گیا تو اس نے ہلکے سے ہاتھ کو جنبش دی۔ ڈاکٹر بہت حیران ہوا، کہنے لگا آپ کون ہیں بھئی، یہ تو اب تک کسی کو دیکھ کر کوئی بھی ریسپانس نہیں دے رہے، آپ کو دیکھ کر ہاتھ ملانا چاہ رہے ہیں، میں نے کہا بس ایسا ہی ہے۔ دوست ہوں۔ وہ ایک ڈیڑھ ہفتے رہا ہسپتال میں۔ بات چیت یا ہلنا جلنا تو ہوتا نہیں تھا۔ خاموش پڑا رہتا تھا۔ ویسے ہی مرگیا۔‘

زاہد ڈار کی آنکھیں خشک تھیں۔ زاہد ڈار کو میں نے کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ انتظار صاحب کی موت پر بھی نہیں روئے تھے۔ انتظار حسین ان کے بیسٹ بڈی تھے۔ ایسا دوست جس کے ساتھ 50 سے 60 برس تک کا روزانہ والا ساتھ ہو تو اس کی موت پر بغیر روئے کوئی رہ کیسے سکتا ہے؟ زاہد ڈار نہیں روئے، پوچھا تو کہنے لگے کہ 'موت کو میں ایک نیچرل فینامینا سمجھتا ہوں۔ وہ مرگئے، سب کو مرنا ہے، کل میں نے بھی مر جانا ہے، تے ایہدے وچ رون آلی کیہڑی گل اے؟'

آپ نے کبھی شاکر علی میوزیم دیکھا ہے؟ اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں اور ادھر لاہور آپ کا چکر لگتا ہے تو دیکھنا فرض ہے۔ اُن دنوں گارڈن ٹاؤن بالکل اجاڑ بیابان اور شہر سے دور پرے کی ایک جگہ سمجھا جاتا تھا۔ شاکر علی نے جب یہاں مکان بنایا تو کوئی ان سے ملنے اتنی دور نہیں آتا تھا۔ ڈار صاحب بھی اس شرط پر جاتے تھے کہ رکشے کا کرایہ شاکر علی دے گا، اکیلا بیٹھا بور ہوتا شاکر علی بے چارہ ہنس کے دیتا تھا۔ اب سین یہ ہے کہ ایک بار بندہ وہ مکان دیکھ لے تو واقعی اندازہ ہوتا ہے کہ اسے بنانے والے نے کس شوق سے بنایا ہوگا اور کس حسرت سے اس کی روح نے وہ ٹھکانا اتنی جلدی چھوڑا ہوگا۔

دُور سے دیکھنے پر وہ قلعے جیسی کوئی جگہ لگتی ہے۔ اندر جائیں تو بھی عجیب و غریب آرکیٹیکچر ہے۔ مجھے کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ شاکر صاحب نے اس میں رہنے کے لیے صرف ایک کمرہ کیوں بنوایا؟ کم از کم دو تین کنال پر پھیلا ہوا گھر ہے لیکن اپنے خود کے رہنے کو صرف ایک کمرہ؟ خیر تو وہ جو شعر ہے ناصر کاظمی کا، ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر، اداسی بال کھولے سو رہی ہے، ادھر پورا بیٹھتا ہے۔ اداسی یہاں باقاعدہ کمبل اوڑھ کے لیٹی نظر آتی ہے۔ ایک تو روشنی کچھ کم ہے پھر شاکر صاحب نے سارا فرنیچر کالے رنگ کا رکھا تھا۔ دروازوں کا رنگ بھی کالا ہے۔ تو وہ سیاہی ایک مستقل ملال اور ماتم کی سی کیفیت بنا دیتی ہے۔

گھر کے واحد کمرے میں چند بستر ہیں جن پر شاکر صاحب آرام کرتے تھے۔ ساتھ اٹیچ واش روم ہے۔ اسی کمرے کی الماریوں میں وہ تمام انٹیکس رکھے ہیں جو شاکر صاحب نے اپنی زندگی میں خریدے تھے۔ تانبے کے پرانے برتن، بُت، مختلف اوزار، دستکاریوں کے کچھ نمونے، پھر ان کے سارے کپڑے بھی اسی الماری کے اندر ابھی تک ہیں جو ان کے استعمال میں رہتے تھے۔ کمرے سے باہر نکلتے ہی سامنے شاکر صاحب کا ایک مجسمہ رکھا ہے۔ اسے بسٹ کہہ سکتے ہیں یعنی صرف سر گردن اور کندھے کے شروع تک کا حصہ، تو اس بسٹ کو ایک عینک بھی لگی ہوئی تھی جیسی شاکر صاحب پہنتے تھے، آج کل وہ عینک ٹوٹ چکی ہے، دیکھیے کب بدلے۔

مزید پڑھیے: صادقین: درویش، فقیر، قلندر یا ایک بے نیاز روح؟

گھر کے اندر شاکر صاحب کی تمام چیزیں، ان کے پاسپورٹ، ان کے سرٹیفیکیٹس، گھڑی، ٹوپی، چھڑی، برش، کچھ تصویریں (جن کے رنگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود ہی اکھڑ رہے ہیں)، کٹلری، فرنیچر وغیرہ سب کچھ حفاظت سے ڈسپلے کیا گیا ہے۔ کمرے کے بعد سیدھے ہاتھ پر ایک برآمدہ سا ہے جہاں ان کی جوانی سے بڑھاپے تک کی تصویریں لگائی گئی ہیں۔ آگے جا کے اوپر نیچے بنی ہوئی 2 گیلریاں ہیں۔ پھر وہیں سے اوپر کی طرف سیڑھیاں جاتی ہیں جہاں ان کا اسٹوڈیو ہے۔ اس سے باہر چھت ہے اور چھت کی الگ کہانی ہے۔ آپ وہاں قدم رکھتے ہیں اور آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے کسی انگریز کے بنائے ہوئے صدیوں پرانے قلعے میں آگئے ہیں۔ گول سا ایک مینار نما اسٹرکچر جس کے اندر اصل میں بیرونی سیڑھیاں ہیں، اونچی اونچی دیواریں، کالے دروازے، کچھ ہیبت اور اداسی کا ملا جلا سین سمجھ میں آتا ہے۔ پچھلی سائیڈ پر ایک خوبصورت باغ ہے اور کل ملا کے ایسا لگتا ہے جیسے ابھی ایک آدھ ماہ پہلے شاکر صاحب یہاں سے اٹھ کر کہیں گئے ہیں۔

گھر کے اندر موجود گیلری، تصویریں

شاکر علی کے گھر کی چھت

وہ گھر، وہاں موجود سب چیزیں، تصویریں، پرانا سامان، نوادرات، وہاں کی ہوا۔۔۔ ایک ایک چیز چیخ چیخ کر سمجھاتی ہے کہ استاد شارٹ ٹرم پروجیکٹ سامنے رکھو۔ زندگی کا کچھ معلوم نہیں، امیدوں کا، خواہشوں کا، سوچوں کا، تمناؤں کا اتنا بھاری بوجھ مت اٹھاؤ کہ زمین پر رکھنے سے پہلے ہی کمر ٹوٹ جائے لیکن پھر اگلے ہی منٹ خیال آتا ہے کہ ایسا بھاری بھی کیا ہوگیا؟ اپنا گھر، اپنی گاڑی، اپنی فیملی کا مستقبل، یہ سب تو ہر کوئی سوچتا ہے، گیم ساری ان چیزوں کو حاصل کرنے کی ہے، آرٹ کا راستہ پکڑا ہے تو پھر ٹاپتے پھرو، نارمل والے راستے اس سب کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔

شاکر علی چلے گئے لیکن مصوری میں اس قدر خدمات انجام دے گئے کہ آج تک ان کی چلائی راہ پر بہت سے لوگ دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان کے شاگردوں کی لاٹ تھی، احمد پرویز، جمیل نقش، بشیر مرزا، معین نجمی، صفدر شیخ، انور جلال شمزا وغیرہ، پھر آگے کتنے ہی بچے خود ان لوگوں نے پڑھائے۔

آج پورے پاکستان میں جدید آرٹ پر جتنا بھی کام ہو رہا ہے اس میں بہت بڑا حصہ اس نسل کا ہے جو شاکر علی نے پروان چڑھائی۔ جے جے اسکول آف آرٹ بمبئی اور سلیڈ اسکول آف آرٹ لندن سمیت دنیا بھر کے استادوں سے شاکر علی نے جو کچھ سیکھا وہ باکمال خوبی سے اگلی نسل کو منتقل کردیا۔

شاکر علی کی یاد میں بھی پاکستان پوسٹ کی طرف سے ڈاک ٹکٹ جاری ہوا اور انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا گیا۔


حسنین جمال ادب، مصوری، رقص، باغبانی، فوٹوگرافی، موسیقی اور انٹیکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نویس ہیں۔ رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں پچھلے چار پانچ سال سے موجود ہیں۔ فیس بک پر آپ انہیں یہاں فالو کرسکتے ہیں۔


حسنین جمال

حسنین جمال ادب، مصوری، رقص، باغبانی، فوٹوگرافی، موسیقی اور انٹیکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نویس ہیں۔ رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں پچھلے چار پانچ سال سے موجود ہیں۔

انہیں فیس بک پر یہاںفالو کریں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔