پاکستان کا ہزاروں سال پرانا مصور شاکر علی
پاکستان کا ہزاروں سال پرانا مصور شاکر علی
شاکر صاحب کو ہم نے بڑی دیر سے دریافت کیا حالانکہ وہ پچھلے 30 ہزار سال سے ہمارے ہی درمیان پینٹ کر رہے تھے۔ ہمارے لوگ ان میں مغربی مصوری کے اثرات ڈھونڈتے رہے اور وہ خود آخری وقت تک اپنی سہولت کے مطابق جو دل کیا اسے پینٹ کرتے رہے۔
18ویں صدی کے آخر میں کچھ ایسے ہوا کہ ایک 8 سالہ ننھی سی بچی اپنے ابّا کے ساتھ لالٹین تھامے اسپین کے غاروں میں قیمتی پتھر اور فوسلز ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ وہ دونوں اپنے کام میں اتنے مگن تھے کہ نیچے زمین پر ہی دیکھتے دیکھتے معمول سے تھوڑا آگے نکل آئے۔ یہاں بچی نے چھت پر جو نظر ڈالی تو اسے لگا جیسے ابھی کل کوئی ادھر تصویر بنا کر گیا ہے۔ ایکدم شوخ سرخ رنگوں کے بھینسے، ہرن اور پتا نہیں کیا کیا ادھر غار کی چھت اور دیواروں پر بنا ہوا تھا۔ بچی کے ابّا نے باہر آتے ہی مقامی ماہرین سے رابطہ کیا اور چند روز میں دنیا بھر کے شوقینوں تک یہ خوشخبری پہنچ گئی کہ انسانی تاریخ کی قدیم ترین پینٹنگز دریافت ہوچکی ہیں۔
وہ تصویریں جو التامیرا (اسپین) کے غاروں میں ہمارے اجداد نے آج سے 30 سے 32 ہزار سال پہلے بنائی تھیں، ان کے رنگ بے حد چمکدار تھے۔ جس طرح ماہرین کی عادت ہے، بڑے عرصے تک تو وہ باقاعدہ خوار ہوتے رہے کہ اگر یہ تصویریں اتنی پرانی ہیں تو موسمی اثرات یا پانی یا کسی طوفان سے کبھی متاثر کیوں نہیں ہوئیں؟ پھر جب تھوڑی سائنس لڑائی اور ٹیسٹ وغیرہ کر لیے تب جا کر انہیں تسلی ہوئی کہ غاروں پر نقوش واقعتاً قدیم وقتوں میں انسان نے ہی چھوڑے ہیں۔
مزید پڑھیے: خالد اقبال: ایسا مست آدمی جو زندگی میں کسی چیز سے متاثر نہیں ہوا
دنیا بھر کے سیاحوں نے اسپین کی ان غاروں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ ابھی پچھلی صدی تک لوگوں کے درمیان زبردست دلچسپی برقرار رہی اور عوام نے بڑی تعداد میں غاروں کی سیر کی۔ پھر یہ ہوا کہ ہر وقت لوگوں کا ہجوم اندر رہنے لگا اور ان کی سانسوں میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ نے ان تصویروں کے رنگ گہنا دیے جنہیں 30 ہزار سال میں کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔
جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ ایک دن میں چند مخصوص لوگ غار وزٹ کرسکیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 3، 3 سال کی ایڈوانس ٹکٹیں فروخت ہوگئیں اور لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے پائے گئے۔ بالآخر 30 سے 35 سال پہلے التامیرا کے غاروں میں سیاحوں کا داخلہ بند ہوگیا۔ تصویریں کیمیکلز وغیرہ کی مدد سے بچا کر محفوظ کی گئیں اور شائقین کے لیے ویسے ہی غار اور لوازمات قریب بنا دیے گئے کہ جسے دیکھنا ہے ادھر آجائے۔
شاکر صاحب اچھے دنوں میں التامیرا کے غار دیکھ کر آچکے تھے اور باقاعدہ ان کے رنگوں اور فن سے متاثر تھے۔ تب وہاں سیاح آرام سے جاسکتے تھے۔ پھر انہوں نے جنوبی ہندوستان میں اجنتا اور ایلورا کے غار بھی دیکھ رکھے تھے اور قدیم ہندو آرٹ بھی ان کے ذہن و دل پر سوار رہا۔ لہٰذا شاکر صاحب نے اسپین اور ہندوستان کی 80 ہزاروں سال پرانی روایت کا بھاری پتھر اٹھایا۔ تھوڑی انسپریشن اپنے دور کے مشہور مغربی مصوروں پال کلی، ماتیس اور موڈیگلیانی سے لی، مشرقی لگاؤ کے شوخ رنگ التامیرا، اجنتا، ایلورا اور کانگڑہ اسکول والوں سے متاثر ہوکر پکڑے اور کام شروع کردیا۔