نقطہ نظر کیا بوتل بند پانی واقعی نلکے کے پانی سے بہتر ہے؟ آلودہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کےنام میڈیا پر آتے رہتے ہیں مگر اس کےباوجود بوتل بند پانی کی سیل میں کمی نہیں ہوئی۔ ذوفین ابراہیم رضوان اللہ خان کے ہاتھ میں اسٹیل کے 2 کٹورے ہیں۔ ایک انہوں نے جوڑیا بازار سے خریدا تھا۔ دوسرے پیالے میں گرم اور ٹھنڈے دونوں ہی مشروبات آسکتے ہیں۔ اس دوسرے پیالے کے اندر قرآن کی آیتِ شفاء کندہ ہے۔ وہ اس پیالے کو چلتے پھرتے پانی پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے ویژوئل اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ میں جیومیٹرک آرٹ پڑھانے والے 49 سالہ ٹیچر کہتے ہیں کہ ’میں مسجد، سرکاری نلکے، غرض کہیں سے بھی پانی بھر کر بسم اللہ پڑھتا ہوں اور پی لیتا ہوں۔ مجھے اللہ پر مکمل یقین ہے کہ اگر میں اس پیالے سے پانی پیوں تو مجھے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔‘ چونکہ وہ بنیادی طور پر سائیکل پر سفر کرتے ہیں اس لیے انہیں بہت زیادہ پانی پینے کی ضرورت پڑتی ہے اور یوں تو وہ کہیں سے بھی پانی بھر کر پی لیتے ہیں مگر ان کے بچوں کے پاس ہمیشہ گھر کے پانی سے بھری ہوئی بوتلیں ہوتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم پانی ابالتے ہیں، چھانتے ہیں اور پھر مٹکے میں جمع کرکے رکھ دیتے ہیں۔‘ کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں واقع ان کے گھر میں یہ پانی ٹینکر کے ذریعے آتا ہے۔ خان اور ان کی اہلیہ کے لیے صحت باعثِ تشویش نہیں۔ رضوان اور ان کی بہن نے اپنے والدین سے ہپی اور صوفی اقدار کا ایک امتزاج ورثے میں پایا اور اب یہ دونوں اور رضوان کی اہلیہ انہی روایات کے تحت زندگی گزرتے ہیں۔ وہ ہر اس چیز کے خلاف برسرِ پیکار ہیں جس میں ’کارپوریٹو کریسی‘ کی بُو بھی شامل ہو۔ بالخصوص یہ ان کمپنیوں کے خلاف ہیں جنہوں نے پانی کو ’زیرِ زمین پانی کا آخری قطرہ تک نکال کر‘ یا پھر ’افریقا میں جھیلیں خرید کر‘ ایک ’مہنگی شے‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ مگر شہری رنگ میں ڈھلی ہوئی، تصرف پر مائل اور بوتل بند پانی پر پلی بڑھی ہوئی نوجوان نسل کے لیے خان جیسے لوگ بہت ہی عجیب ہیں جن کا طرزِ زندگی مشکل اور اکثر اوقات سمجھ سے باہر ہے۔ ایک نوجوان کاروباری شخصیت سلمان احمد کہتے ہیں کہ ’میں اتنا بہادر نہیں ہوں کہ پاکستان کے کسی بھی شہر، بالخصوص کراچی میں نلکے کا پانی پی کر اپنی قسمت آزماؤں۔‘ پڑھیے: بوتل میں پانی پینا جلد بڑھاپے کا باعث؟صرف کراچی ہی نہیں جہاں رپورٹس کے مطابق سب سے زیادہ آلودہ پانی سپلائی کیا جاتا ہے، بلکہ پاکستان کے زیادہ تر شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی عوام کی اکثریت کا یہی جواب ہوگا۔ گزشتہ سال سندھ کے 29 میں سے 14 اضلاع میں 83 فیصد سے زائد پینے کا پانی صحت کے لیے مضر قرار دیا گیا تھا جبکہ کراچی 91 فیصد آلودگی کے ساتھ اول درجے پر آیا تھا۔ جون 2018ء میں شائع ہونے والی پاکستان کونسل آف ریسرچ فار واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شیرخوار بچوں کی 45 فیصد اموات ڈائریا کے سبب اور مجموعی طور پر 60 فیصد اموات پانی کے ذریعے پھیلنے والے انفیکشنز کے ذریعے ہوتی ہیں۔ مگر بیماریوں کے ڈر سے بوتل استعمال کرنا صرف پاکستان میں ہی عام نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اب زیادہ سے زیادہ لوگ بوتل بند پانی استعمال کرنے لگے ہیں، یہاں تک کہ ان ممالک میں بھی جہاں حکومتوں کے مطابق پینے کا پانی محفوظ ہے۔ آج یہ دنیا میں سب سے تیزی سے پھلنے پھولنے والی مشروباتی صنعت ہے اور اس کی قدر تقریباً 147 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ صرف امیروں کا شوق؟آپ سوچیں گے کہ بوتل بند پانی صرف امیروں کا شوق ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں پانی کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کا خوف اس قدر زیادہ ہے کہ کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگ بھی اپنی قریبی دکانوں سے بغیر برانڈ کی نیلی پلاسٹک بوتلوں میں موجود پانی یہ سوچ کر خریدتے ہیں کہ یہ نجی ٹینکروں یا میونسپلٹی کے فراہم کردہ پانی سے زیادہ محفوظ ہوگا۔ 20 کی عمر کے لگ بھگ موجود آسیہ کامران ایک نوجوان ماں ہیں جو ایک گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ کراچی کے علاقے کلفٹن میں شیریں جناح کالونی کے پاس رہنے والی آسیہ نے کبھی بھی اپنے 2 سالہ بیٹے کو 19 لیٹر کی نیلی پلاسٹک بیرل سے پانی نہیں دیا ہے۔ ’میں صرف ڈیڑھ لیٹر والی برانڈڈ بوتل کا پانی پلاتی ہوں کیونکہ ڈاکٹر نے مجھے سختی سے کوئی بھی دوسرا پانی پلانے سے منع کیا ہے ورنہ وہ بہت ہی بیمار ہوجائے گا۔‘وہ پانی بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں جس کی ایک وجہ اس کی قیمت بھی ہے۔ آسیہ بتاتی ہیں کہ ’بوتل 60 روپے کی پڑتی ہے جو کہ میرے بیٹے کے ایک ہفتے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ دوسری جانب بیرل ہمیں 70 روپے کی پڑتی ہے جس سے میں اور میرے شوہر 2 ہفتے گزار لیتے ہیں۔‘یہ فرق صرف پینے کے پانی کے لیے ہے۔ ان کی دیگر ضروریات مثلاً چائے اور کھانے کے لیے وہ ٹینکر کا پانی (ابالنے کے بعد) استعمال کرتے ہیں۔مگر جو پانی آسیہ خریدتی ہیں وہ زمین سے نکلتا ہے اور کمپنی کو اس کی کوئی قیمت چکانی نہیں پڑتی۔ وہ جو قیمت ادا کر رہی ہیں، دراصل ذریعے سے پانی نکالنے، پلاسٹک بوتل کی تیاری میں استعمال ہونے والے مٹیریل، پانی کی ٹریٹمنٹ پر لگنے والی بجلی، بوتل کی صفائی، بھرائی، لیبلنگ، اسے ٹھنڈا کرنے، مارکیٹنگ کرنے اور ریٹیلر تک پہنچانے کے ٹرانسپورٹ اخراجات کی قیمت ہے۔ پانی اور مشروبات کی صنعت میں موجود ایک ذریعے نے ایئوس (EOS) میگزین کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’تیاری کی اوسط قیمت تقریباً 30 فیصد ہوتی ہے۔ تجارتی ڈسکاؤنٹ، فروخت اور تقسیم کے اخراجات تقریباً 29 فیصد ہوتے ہیں۔ ریٹیلر اور ڈسٹری بیوٹر کا مارجن 15 فیصد ہوتا ہے۔‘ اس کے علاوہ آسیہ شاید حکومت کا کمپنی پر عائد کردہ 17 فیصد ٹیکس اور پھر وہ 5 سے 6 فیصد منافع بھی ادا کرتی ہیں جو کمپنی پانی فروخت کرکے حاصل کرتی ہے۔ مگر کچھ کمپنیوں کی دلیل ہے کہ چونکہ انہیں پانی نکالنے پر فیس ادا نہیں کرنی پڑتی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پانی ان تک بالکل مفت پہنچتا ہے۔ ایک ملٹی نیشنل بوٹلنگ کمپنی میں کام کرنے والے ذریعے کا کہنا ہے کہ ’انڈسٹریل پلانٹ لگانے، صفائی اور پانی کا معیار یقینی بنانے اور لاجسٹکس کی ایک بہت بلند قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ درحقیقت، لاجسٹکس ہی قیمت کا سب سے بڑا حصہ لے لیتی ہیں۔ یہ کسی بھی پیک شدہ پراڈکٹ کے برعکس 40 سے 44 فیصد ہوتا ہے۔‘کئی محققین اس صنعت کی جانب سے پانی کے بے دریغ استعمال کی نشاندہی کرتے ہیں جو پیکنگ، ٹریٹمنٹ، بوتلوں میں بھرائی اور صفائی کے دوران استعمال ہوتا ہے۔ فریش واٹر واچ نامی ادارے کی ایک تحقیق کے مطابق پلاسٹک کی بوتلیں اپنی پانی جمع کرنے کی صلاحیت سے 3 گنا زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ایسی بوتل جو ایک لیٹر پانی سنبھال سکتی ہو، اس کی تیاری میں 3 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ مگر اسے مبالغہ قرار دیتے ہوئے پانی اور مشروبات کی انڈسٹری میں کام کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ایک لیٹر بوتل بند پانی کی تیاری میں کم از کم 1.7 لیٹر پانی لگتا ہے۔ صنعت میں کام کرنے والے ذریعے کے مطابق درحقیقت ’کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو ٹیکنالوجیز اور بہتر ساز و سامان تک رسائی کی وجہ سے مقامی کمپنیوں سے زیادہ مؤثر ہیں۔‘ ایک سرکاری لیبارٹری میں پانی کی ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے صاف پانی ضروری نہیں کہ محفوظ بھی ہو!مگر آسیہ کے گھرانے جیسے کئی خاندان کافی قیمت ادا کرنے کے باوجود شاید محفوظ پانی نہ پی رہے ہوں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ فار واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کے کراچی آفس میں موجود ایک ریسرچ آفیسر زمینی، زیرِ زمین اور بوتل بند پانی کے معیار کی تقریباً 1 دہائی سے جانچ پڑتال کر رہے ہیں اور انہیں کراچی بھر میں دستیاب بوتل بند پانی کے بظاہر محفوظ نظر آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کونسل ہر 4 ماہ بعد مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی پر لیبارٹری ٹیسٹ کرتی ہے اور اس کے نتائج کا تبادلہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی سے کیا جاتا ہے۔ بالخصوص بوتل بند پانی کے لیے وزارت کی ہدایت ہے کہ اس کے ماتحت کام کر رہی پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے، جو کہ بوٹلنگ پلانٹس کو کچھ معیارات کی پاسداری کرنے کے بعد اپنی مصنوعات فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہے) کسی بھی ایسی کمپنی کو سیل کردے جو متعین کردہ ضوابط کی پاسداری نہ کر رہی ہو۔ سندھ اور بلوچستان میں سرٹیفکیشن اور انسپیکشن کی خدمات فراہم کرنے والے پی ایس کیو سی اے ساؤتھ زون کے ضوابط کی پاسداری پر نظر رکھنے والے کنفورمٹی اسیسمنٹ سینٹر (سی اے سی) کے پراجیکٹ ڈائریکٹر علی بخش سومرو نے ایئوس کو بتایا کہ دونوں صوبوں میں ان کی زیرِ جانچ تقریباً 250 لائسنس یافتہ برانڈز موجود ہیں مگر سینکڑوں غیر رجسٹرڈ برانڈز بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ سومرو بتاتے ہیں کہ ’پی ایس کیو سی اے کے لائسنس کے بغیر بوتل بند پانی کی کمپنی چلانا غیر قانونی ہے‘۔ ان کے مطابق حکومتی انسپکٹر اکثر اوقات ایسے غیر قانونی پلانٹس پر چھاپہ مار کر انہیں سیل کر دیتے ہیں۔ ’مگر یہ کمپنی فوراً ہی ایک نئی شناخت اور ایک نئی لوکیشن اپنا لیتی ہیں اور بوتل بند پانی کی غیر قانونی فروخت جاری رکھتی ہیں‘۔ کئی غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کے بارے میں پایا گیا ہے کہ وہ پلاسٹک کی نیلی بیرلز کو سرکاری، مثلاً لاہور میں واسا یا پھر کراچی میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے فراہم کردہ پانی سے بھر کر رجسٹرڈ کمپنیوں کے پانی سے کم داموں پر فروخت کردیتی ہیں۔ کچھ دیگر کمپنیاں زیرِ زمین پانی کو ریورس اوسموسس (آر او) پلانٹ سے گزار کر قیمت کچھ بڑھا دیتی ہیں۔ مزید پڑھیے: صحت اور قیمت کے اعتبار سے نلکے کا پانی پینا بہترپی سی آر ڈبلیو آر سے تعلق رکھنے والے غلام مرتضیٰ جو گزشتہ سال سپریم کورٹ کی جانب سے فراہمی اور نکاسی آب کے معاملے پر بنائے جوڈیشل کمیشن کی مقرر کردہ ٹاسک فورس کے رکن بھی ہیں، انہوں نے ایئوس کو بتایا کہ 2 ماہ قبل کمیشن نے کونسل کو سندھ کے مختلف سرکاری ہسپتالوں اور اسکولوں سے پانی کے سیمپل اکھٹا کرنے اور انہیں ٹیسٹ کرنے کے لیے کہا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے پایا کہ صوبے کے 22 ضلعوں، بشمول کراچی کے سرکاری ہسپتالوں سے جمع کیے گئے پانی کے 250 سیمپلز میں سے 85.2 فیصد میں ٹھوس کیمیائی اور خرد بینی حیاتیاتی آلودگیاں موجود تھیں‘۔ یہ سیمپلز بوتلوں، ڈسپنسرز اور دیگر ذرائع سے حاصل کیے گئے تھے۔ کمیشن بوتل بند پانی تک کے آلودہ ہونے پر تلملا اٹھا اور اس نے گزشتہ ماہ پی ایس کیو سی اے کو ہدایت کی کہ وہ صرف بوتل بند پانی پر ٹیسٹ کرے۔ اس کے علاوہ اس نے محکمہ صحت کو حکم دیا کہ ہسپتالوں کو پانی فراہم کرنے والی اُن کمپنیوں کے ساتھ معاہدے منسوخ کردے جو پی ایس کیو سی اے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں، پھر چاہے پانی کا معیار کیسا بھی ہو۔ آلودہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے نام میڈیا پر سامنے آتے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود بوتل بند پانی کی سیل میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے پاکستان فریش واٹر پروگرام کے سینئر افسر صہیب وسیم نکتہ چینی کرتے ہیں کہ ’فراہمی آب کے ہمارے قدیم نظام سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ناقابلِ استعمال قرار دیے جانے کے باوجود لوگ پھر بھی فراہمی آب کے حکومتی نظام کے اوپر بوتل بند پانی کو ترجیح دیتے ہیں۔‘ وسیم دلیل دیتے ہیں کہ ’حکومت سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرسکتی ہے کہ اس کا نظام شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرسکتا ہے۔ مگر تب تک حکومت کے فراہمی آب کے ناکارہ نظام کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو بوتل بند پانی فراہم کرنے والی کمپنیاں پُر کرتی رہیں گی۔‘اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ صارفین صاف پانی (جس میں آلودگیاں نظر نہ آرہی ہوں) کو محفوظ پانی (انسانوں کے لیے قابلِ استعمال) سمجھ لیتے ہیں۔ وسیم کہتے ہیں کہ ’جب وہ بوتل بند صاف پانی دیکھتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ یہ مقامی سپلائی سے زیادہ بہتر اور صاف پانی ہے‘۔ ان کے مطابق اکثر اوقات پانی کو فلٹر کرنے یا ابالنے سے زیادہ آسان بوتل بند پانی خریدنا سمجھا جاتا ہے۔ بوتل بند پانی کی قیمت میں ترسیل اور دیگر متعلقہ اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں پمپنگ اور قیمت کے قوانین کی عدم موجودگیجہاں شہری پانی کے لیے ترس رہے ہیں اور اس کی عدم موجودگی کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں، وہیں لگتا ہے کہ کمپنیوں کے پاس بوتلیں بھرنے کے لیے لاانتہا سپلائی موجود ہے، وہ بھی تقریباً مفت میں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے وسیم کہتے ہیں کہ ’کمپنیوں کے لیے اس حوالے سے کوئی حد مقرر نہیں کہ وہ کتنا پانی نکالتے ہیں‘۔ پاکستان میں زیرِ زمین پانی نکال رہے کسی بھی شخص کے لیے یہ خوش کن ہے کہ اس حوالے سے ضوابط موجود نہیں۔ وسیم کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں زیرِ زمین پانی نکالنے کے حوالے سے کوئی بھی قانون موجود نہیں ہے، مگر وہ ان حوالوں اور شقوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو مختلف قوانین اور ایکٹ میں ’زیرِ زمین پانی کے استعمال‘ کے حوالے سے موجود ہیں۔ نیشنل واٹر پالیسی 2018ء، کینال اینڈ ڈرینج ایکٹ 1873ء، صوبائی اریگیشن اینڈ ڈرینج ایکٹ 1997ء یا پنجاب سوائل ریکلیمیشن ایکٹ 1952ء میں ’زیرِ زمین پانی‘، ’زیرِ سطح پانی‘ یا پھر زیرِ زمین وسائل کے ’ناکافی‘ حوالے ملتے ہیں۔ گزشتہ سال حکومتِ پنجاب کے اریگیشن ڈپارٹمنٹ نے پنجاب گراؤنڈ واٹر پروٹیکشن، ریگولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ (2017) تیار کیا تھا تاکہ صوبہ پنجاب میں زیرِ زمین پانی نکالنے سے متعلق کوئی قاعدہ بنایا جاسکے اور اس کے لیے اس نے مختلف اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی کی تھی۔ مگر اسے عملی جامہ کب پہنایا جائے گا اس حوالے سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر اس سب کے باوجود اس حوالے سے حدود مقرر نہیں کہ کمپنیاں کس قدر پانی نکال سکتی ہیں اور وہ نکالے گئے پانی کے لیے ادائیگی بھی نہیں کرتیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے وسیم سمجھاتے ہیں کہ اس کے بجائے وہ صوبائی ترقیاتی قوانین مثلاً پنجاب ڈیولپمنٹ آف سٹیز (ترمیمی) ایکٹ 2017ء کے تحت زمین کی اراضی کے حساب سے ایک ماہانہ فکس 'کمرشل ریٹ' ادا کرتی ہیں۔ ان کے مطابق بوتل بند پانی کی کمپنیوں کو اپنے پاس موجود اراضی کے بجائے نکالے گئے پانی کی مقدار کے حساب سے ادائیگی کرنی چاہیے ’کیونکہ زمین کے رقبے اور پانی کی قیمت کے درمیان کوئی معقول تناسب موجود نہیں ہے۔‘ مگر پانی اور مشروبات کی صنعت کے ترجمان کے مطابق ’بوتل بند پانی کی صنعت صنعتی استعمال کے لیے مختص 2 فیصد کا تقریباً 0.001 فیصد استعمال کرتی ہے جو پاکستان میں موجود تقریباً 100 بوتل بند پانی کی کمپنیوں کے درمیان تقسیم ہے۔‘ اس کی تصدیق لاہور میں مقیم عارف انور بھی کرتے ہیں جو انٹرنیشنل واٹر مینیجمنٹ انسٹیٹیوٹ (آئی ڈبلیو ایم آئی) کے ملکی سربراہ ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مقدار کے اعتبار سے ’نکالا اور بوتلوں میں بھرا گیا پانی دیگر شعبوں، مثلاً زراعت (بالخصوص سطحی آبپاشی) کے استعمال کردہ پانی کی مقدار سے بہت کم ہے۔‘ پی سی آر ڈبلیو آر کی لیبارٹری میں ٹیسٹنگ کے لیے اکھٹے اور سیل کیے گئے پانی کے سیمپلز آئی ڈبلیو ایم آئی کے ترجمان زور دیتے ہیں کہ اب پاکستان کو تمام شعبوں کی جانب سے پانی کے استعمال پر قیمت عائد کی جانی چاہیے۔ اس میں کسان، میونسپلٹیاں اور صنعتی شعبہ بھی شامل ہے۔’مجھے لگتا ہے کہ پاکستان اگر پانی کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اسے ایک چیز ضرور کرنی چاہیے، اور وہ ہے اس کے استعمال کی قیمت متعین کرنا۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ پانی کی قیمت وصول کی جائے تو میں اس میں سطحی پانی کے استعمال کنندگان کو بھی شامل کرتا ہوں اور اس قیمت میں فراہمی کی قیمت یا آبیانہ بھی شامل ہوگا۔‘ بوتل بند پانی کی کمپنیاں کہتی ہیں کہ اگر دوسرے صارفین ادائیگی کرتے ہیں تو وہ بھی اپنا جائز حصہ ادا کرنے کے لیے بخوشی تیار ہوں گی۔ بوتل بند پانی کی صنعت کے ایک ترجمان نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ ’صنعت متوازن انضباط کی حامی ہے۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ مساوی قوانین تیار کیے جائیں تاکہ پانی کے تمام صارفین اپنا اپنا جائز حصہ ادا کریں اور پانی کے ذخائر کے طویل مدتی اور پائیدار استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔‘ بوتل بند پانی فروخت کرنے والی زیادہ تر کمپنیاں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا و بلوچستان کے حصوں میں قائم ہیں۔ بڑی فیکٹریاں پنجاب اور سندھ میں جبکہ چھوٹی فیکٹریاں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قائم ہیں۔ پاکستان میں ایسی تمام کمپنیاں پانی کے حصول کے لیے زیرِ زمین پانی پر منحصر ہیں اور آر او ٹریٹمنٹ کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس میں معدنیات (منرلز) بھی شامل کر دیتی ہیں۔ جانیے: بوتل میں پانی پینے سے کینسر ہوتا ہے؟پانی نکالنے کے اثراتآبی کارکنوں کا کہنا ہے کہ پانی کو بوتل میں بند کرنے اور زیرِ زمین پانی کا کسی بھی مقصد کے لیے استحصال کرنے کے ماحولیاتی اثرات انتہائی زیادہ ہیں بالخصوص اس صورتحال میں جب یہ پانی اس مقدار سے زیادہ تیزی سے نکالا جارہا ہو جس تیزی سے یہ بھرتے ہیں۔ 2003ء سے 2013ء کے درمیان پانی کے 37 بڑے ذخائر پر ناسا کی تحقیق نے پایا کہ دریائے سندھ کے ساتھ موجود آبی ذخائر دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ دباؤ کا شکار ہیں جن میں سے نکالا زیادہ جاتا ہے جبکہ یہ ریچارج نہیں ہوپاتے۔ معاملات تب مزید خراب ہوتے ہیں جب بوتل بند پانی کا پلانٹ یا کوئی بھی دیگر صنعت چھوٹے کسانوں کی زمینوں کے پاس کم گہرے کنوؤں سے پانی نکالنا شروع کردے، اور تبھی زیرِ زمین پانی کی سطح گرنا شروع ہوجاتی ہے۔ انور نشاندہی کرتے ہیں کہ ’یہ وہ مقام ہے جہاں چھوٹے کسانوں پر اس کا اثر پڑتا ہے‘۔وسیم کے مطابق اگر زیرِ زمین پانی جس شرح سے نکالا جا رہا ہے، اسی شرح سے ریچارج نہ ہو تو بالآخر یہ مقامی ماحولیات کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مقامی سیمنٹ فیکٹریوں کی جانب سے بے دریغ انداز میں پانی نکالنے کی وجہ سے کٹاس راج کا تالاب سوکھنا ایسے سنگین نتائج کی واضح مثال ہے‘۔ وسیم کہتے ہیں کہ ’بوتل بند پانی کی چند کمپنیاں پانی میں معدنیات کا اضافہ تو کرتی ہیں مگر دوسری کمپنیاں عام طور پر ایسا نہیں کرتیں۔ چنانچہ جہاں بوتل بند پانی صحت کے لیے محفوظ ہوتا ہے اور جسم کی پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے، وہیں اس میں وہ معدنیات شامل نہیں ہوتے جو چشموں کے پانی میں ہوتے ہیں۔‘ مگر کمپنیوں کے بارے میں انصاف پسندی سے بات کریں تو کچھ ’زیادہ محتاط‘ کمپنیوں کے پلانٹس میں پانی کی سطح کے میٹر نصب ہوتے ہیں جو زیرِ زمین پانی کی سطح کا مسلسل جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ لیکن وسیم کہتے ہیں کہ ’جہاں یہ اقدامات زیرِ زمین پانی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اچھا شروعاتی قدم ہے اور انہیں فروغ بھی دینا چاہیے، مگر یہ کافی نہیں ہے‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان زیرِ زمین پانی کی بھرائی کے لیے آواز اٹھاتا رہتا ہے‘۔ وسیم آرسینک کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’زیادہ پانی نکالنے کی وجہ سے کچھ عناصر جو پہلے نظر نہیں آتے تھے، اب اپنا ارتکاز بڑھ جانے کی وجہ سے زیادہ نظر آتے ہیں۔‘سائنس ایڈوانسز نامی جریدے میں گزشتہ سال شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان بھر سے لیے زیرِ زمین پانی کے 1200 سیمپلز میں آرسینک کی ’انتہائی زیادہ مقدار‘ پائی گئی جو جنوبی خطے میں 200 مائیکروگرام فی لیٹر سے بھی زیادہ تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کم از کم 6 کروڑ لوگ آرسینک کی زہر خورانی کے خطرے کی زد میں ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق آرسینک کی زیادہ مقدار والا پانی مسلسل پینے سے جلد کی بیماریاں، پھیپھڑوں کا کینسر اور دل کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے پینے کے پانی میں آرسینک کی قابلِ قبول سطح کو 10 مائیکروگرام فی لیٹر پر مقرر کیا ہے مگر حکومتِ پاکستان کے نزدیک فی لیٹر 50 مائیکروگرام تک قابلِ قبول ہے۔ پلاسٹک کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟آج کل صرف بوتل کے اندر موجود چیز پر ہی لاانتہا بحث نہیں ہو رہی بلکہ بوتل خود بھی بدنام ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین لوگوں کو پلاسٹک کے بے دریغ استعمال سے خبردار کر رہے ہیں۔ یہ زمین اور سمندروں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہماری زمین پر موجود بے پناہ پلاسٹک ہماری بوتل بند پانی کی پیاس کی وجہ سے ہے۔ ہر سیکنڈ میں تقریباً 20 ہزار پانی کی بوتلیں خریدی جاتی ہیں اور 2021ء تک اس تعداد میں 20 فیصد کا اضافہ ہوجائے گا۔ 2016ء میں دنیا بھر میں پلاسٹک کی پینے کی 480 ارب بوتلیں فروخت ہوئی تھیں جو ایک دہائی قبل 300 ارب تھیں۔ یورومانیٹر انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021ء تک یہ تعداد 583 ارب تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں پلاسٹک کی بوتلوں کی فروخت کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں مگر وسیم بتاتے ہیں کہ (شہری علاقوں میں) 15 سے 20 فیصد آبادی بوتل بند پانی استعمال کرتی ہے۔ ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے وسیم بتاتے ہیں کہ دریائے سندھ تقریباً 1 لاکھ 64 ہزار 332 ٹن پلاسٹک سمندر میں لے کر جاتا ہے۔ یہ دنیا کے ان 10 دریاؤں میں سے دوسرے نمبر پر آیا تھا جو 90 فیصد پلاسٹک کچرے کو سمندروں میں لے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ پورا کچرا پلاسٹک کی پانی کی بوتلیں نہیں ہوتیں۔ سافٹ ڈرنکس اور پانی کے لیے استعمال ہونے والی بوتلیں پولی ایتھائیلین ٹیٹراپھتھیلیٹ (پیٹ) سے تیار ہوتی ہیں۔ یہ ری سائیکل کیا جا سکنے والا مٹیریل ہے جس سے نئی بوتلیں تیار کی جا سکتی ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ پیٹ کا صرف کچھ حصہ ہی ری سائیکل کیا جاتا ہے اور دھاگے (یارن) بنا کر کپڑوں، قالینوں، کھلونوں اور پیکنگ کے مواد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ وسیم بتاتے ہیں کہ ’پلاسٹک کی روایتی بوتلیں گٹر بند کرسکتی ہیں، کچرا ٹھکانے لگانے کی سائٹس پر دباؤ بڑھا سکتی ہیں، سمندروں اور دریاؤں کو آلودہ کرسکتی ہیں اور آبی و زمینی حیات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ ایسے پلاسٹک کو مناسب طور پر ری سائیکل کرکے دوبارہ استعمال کرنا نہایت اہم ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ری سائیکلنگ کی کوششیں پلاسٹک کی بوتلوں کی تیاری اور پھینکے جانے سے پیچھے رہ گئی ہیں۔‘مگر پلاسٹک صرف زمینوں اور سمندروں کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ یہ تیزی سے انسانی خوراک تک بھی اپنا راستہ بنا رہا ہے۔ اس سال کے آغاز میں واشنگٹن ڈی سی کی ایک غیر منافع بخش صحافتی تنظیم اورب (Orb) میڈیا نے بوتل بند پانی میں پلاسٹک کے خردبینی ذرات پائے۔ گزشتہ سال انہیں نلکے کے پانی اور سی فوڈ کے اندر بھی پلاسٹک کے ذرات ملے تھے۔ مغرب میں اب بحث کا رخ لوگوں کو نلکے کے پانی کے استعمال کی ترغیب دینے کی جانب مڑ چکا ہے اور اس کام کے لیے عوامی مقامات پر پینے کے پانی کے فوارے لگائے گئے ہیں اور ان کی بوتلیں دوبارہ بھری جاتی ہیں۔ اور بوتل صرف تب استعمال کی جاتی ہے جب واقعی ضرورت ہو، کیونکہ نلکے کے ذریعے فراہم کیا گیا پانی پینے کے لیے محفوظ ہوتا ہے۔ پاکستان میں نلکے کے پانی کے معیار کی وجہ سے لوگ ابھی تک اس کام کے لیے تیار نہیں ہیں مگر کچھ لوگوں پر کی گئی ابتدائی کوششوں کے بعد لوگ اس حوالے سے کوششیں کرنے لگے ہیں۔ اسلام آباد کی ایک تنظیم لیڈرشپ فار انوائرمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (لیڈ) پاکستان کی ڈائریکٹر پروگرامز حنا لوٹیا بتاتی ہیں کہ ’ہمارے دفتر میں ہم پانی کی بوتلوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری میٹنگز میں بھی ہم لوگوں کے سامنے گلاس رکھتے ہیں تاکہ وہ ڈسپنسر سے پانی بھر کر پی سکیں۔‘ مزید جانیے: پرانی بوتل کو پانی پینے کیلئے استعمال کرنا چاہئے؟اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کے دفتر میں اسٹاف کی ری سائیکل کے قابل بوتلوں کے استعمال یا پھر گلاس میں پانی لینے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ برطانوی ہائی کمیشن کے کمیونیکشن سیکشن کے سربراہ سیموئیل ہیتھ کہتے ہیں کہ ’یہ فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس (ایف سی او) کے 2020ء تک اپنی تمام جائیدادوں سے صرف ایک دفعہ استعمال کے قابل پلاسٹک پر پابندی لگانے کی کوشش کا حصہ ہے‘۔ ان کے مطابق ’اس پابندی میں ہمارے لندن میں ہیڈ کوارٹرز اور اسلام آباد اور کراچی سمیت 270 سفارتی مراکز بھی شامل ہیں‘۔ ایف سی او پہلے ہی پلاسٹک کے اسٹرا، پلاسٹک کی تھیلیاں اور پلاسٹک کی کٹلری ختم کرکے دوبارہ استعمال کے قابل کافی کپ، پانی کی بوتلیں اور اسٹرا متعارف کروا چکا ہے۔ اپنی چھوٹی کوششوں کے طور پر کراچی کے 2 تعلیمی ادارے حبیب یونیورسٹی (ایچ یو) اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ (آئی او بی ایم) پلاسٹک کی بوتلوں کا استعمال روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایچ یو نے تمام طلبا، اساتذہ اور اسٹاف کو پانی کی بوتلیں فراہم کی ہیں جو یونیورسٹی میں جگہ جگہ موجود ڈسپنسرز سے بھری جاسکتی ہیں۔ ان ڈسپنسرز پر ایک لائسنس یافتہ کمپنی کا بوتل بند پانی موجود ہوتا ہے۔ حبیب یونیورسٹی کے ترجمان حسان حیدر کے مطابق ’ہم اپنے کیمپس میں بوتل بند پانی کی فروخت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ انتظامیہ نے تمام کیفے ٹیریاز اور جم کے اندر اور باہر ڈسپنسر لگائے ہیں تاکہ بوتل بند پانی کی فروخت اور نتیجتاً پلاسٹک کی بوتلوں کی فروخت کم ہو سکے۔‘ آئی او بی ایم کے ترجمان اعجاز واسع کے مطابق ’انسٹیٹیوٹ میں پانی کو ہمیشہ ایک قیمتی وسیلہ تصور کیا جاتا ہے۔ ٹوائلٹس اور کیمپس کی مسجد کے وضو خانے سے پانی جمع کرکے اس کی ٹریٹمنٹ کرنے کا ایک مناسب نظام بھی موجود ہے جس سے بعد میں باغات کو پانی دیا جاتا ہے۔‘ بوتل بند پانی کا اختتام ممکن ہے؟ایک نیا اسٹارٹ اپ پاک ویٹا سلوشنز (پی وی ایس) اگر کامیاب ہوجاتا ہے تو شاید مہنگے بوتل بند پانی کے دن گنے جا چکیں۔ نوجوان کاروباری شخصیات اور انجینیئرز کے اس گروہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پینے کے پانی کو صاف کرنے کی ایک 'کم قیمت' ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو بجلی کا استعمال کیے بغیر پانی کو 99.9999 فیصد تک صاف کرسکتی ہے۔ پی وی ایس کے چیف ایگزیکٹیو افسر شایان سہیل کے مطابق ’ایک مرتبہ جب آپ ہماری ٹیکنالوجی اپنے نلکوں پر لگوا لیں گے تو آپ کو بوتل بند پانی کی یا پانی ابالنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘مگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نئی نہیں ہے۔ ’یہ 1990ء کی دہائی میں تیار کی گئی تھی مگر یہ اب بھی بہت مہنگی ہے۔ ہم اس کی قیمت اس حد تک نیچے لانے میں کامیاب رہے ہیں کہ لوگ اسے برداشت کرسکیں۔‘ سہیل تعلیم کے اعتبار سے ایک کیمیکل انجینیئر ہیں جو پولی میرک جھلیوں پر اسپیشلائزیشن کرچکے ہیں۔ وہ زور دیتے ہیں کہ وہ براہِ راست بوتل بند پانی کی صنعت سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ’ہم یہ بلند و بانگ دعوے نہیں کرتے کہ ہم زنگ آلود پائپ لائنوں کا زنگ، بیکٹیریا، کیڑے اور دیگر جراثیم پر مشتمل آلودگی صاف کرسکتے ہیں جو زیرِ زمین ٹینکوں میں موجود پانی میں عام ہے (جہاں سے میونسپلٹیاں اور ٹینکر پانی حاصل کرتے ہیں)۔ مگر ہم یہ گارنٹی دیتے ہیں کہ آپ جو بھی قطرہ پیے گیں، اگر وہ آپ کے نلکے پر موجود ہمارے فلٹر سے گزرا ہے، تو وہ چھوٹے سے چھوٹے وائرس یا بیکٹیریا سے پاک ہوگا، وہ بھی کسی ضرر رساں کیمیکل یا بجلی کے استعمال کے بغیر۔‘ انہیں واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی (واسا)، پی سی آر ڈبلیو آر، پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) اور یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی جانب سے سرٹیفیکیشن مل چکی ہے۔ پی وی ایس کے ترجمان کے مطابق فلٹر کی ایک طویل شیلف لائف ہے۔ ان کے مطابق یہ زندگی بھر چل سکتا ہے جب کہ اس کی جھلی کو سال میں صرف ایک مرتبہ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ سہیل بتاتے ہیں کہ ’5 سے 6 افراد پر مشتمل گھرانہ جو پینے کے لیے صرف بوتل بند پانی استعمال کرتا ہے، اس کے لیے سالانہ اخراجات کا محتاط اندازہ 30 ہزار روپے ہے‘۔ وہ فوراً ایک پرچی پر حساب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر وہ پاک ویٹا استعمال کرلیں تو اس کا خرچہ صرف 5 ہزار سے 8 ہزار روپے سالانہ ہوگا۔‘ ان کے مطابق کمپنی فلٹر کا ڈیزائن نہ صرف ’دوستانہ‘ بلکہ ’اسٹائلش‘ ہونے کا بھی وعدہ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپنی نلکوں پر لگ سکنے والے فلٹرز کے علاوہ پی وی ایس ہینڈ پمپس، میٹھے پانی کے کنوؤں، پانی کے ڈول اور دیہی گھروں کے لیے فلٹرز پر بھی کام کر رہی ہے۔ فی الوقت یہ کچھ غیر سرکاری تنظیموں، پاک فوج، کچھ طبی اور تعلیمی اداروں اور چھوٹے کاروباروں کے ساتھ کام کر رہی ہے مگر کئی دوسرے بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال اس اسٹارٹ اپ کو حکومت نے سب سے زیادہ تخلیقی سوچ پر ایوارڈ (Most Innovative Award) سے بھی نوازا تھا، اور اس سے بھی زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ پی وی ایس نے اپنی موجودگی کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کروایا ہے جس میں کئی بین الاقوامی ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز بشمول ہیلو ٹومارو، فالنگ والز اور ینگ واٹر سلوشنز شامل ہیں۔ انگلش میں پڑھیں۔ لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر رابطہ کریں: Zofeen28@یہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 21 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔ ذوفین ابراہیم ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔