دنیا

جمال خاشقجی کی موت کا یقین ہوگیا، امریکی صدر

سعودی صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو ذمہ دار ٹھہرا کر شدید جواب دینا چاہیے، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاپتہ سعودی صحافی کے معاملے پر شدید انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب انہیں یقین ہوگیا ہے کہ جمال خاشقجی مرچکے ہیں اور سعودی عرب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافی کے سوال کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ 2 ہفتوں سے زائد سے لاپتہ سعودی صحافی اب زندہ نہیں ہیں؟ پر کہا کہ ’ یقینی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے اور یہ بہت افسوس کی بات ہے‘۔

سعودی عرب کو ممکنہ طور پر امریکی جواب پر ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت لہجے میں کہا کہ ’ہمیں بہت شدید جواب دینا پڑے گا اور یہ بہت برا اور بدتر ہوگا‘۔

مزید پڑھیں: ’جمال خاشقجی شاہی خاندان کی کرپشن، دہشتگردوں کےساتھ تعلقات سے آگاہ تھے‘

قبل ازیں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے امریکا کے جواب سے متعلق کہا تھا کہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کہا ہے کہ تحقیقات مکمل کرنے کے لیے سعودی عرب کو مزید کچھ دن دینے چاہئیں‘۔

ادھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ جمال خاشقجی کے معاملے پر امریکی حکمران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی انٹیلی جنس عہدیدار جنرل احمد الاسیری پر الزام لگا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے سب سے طاقت ور سرپرست کی جانب سے ملک کے شاہی افراد کو مسلسل شک کا فائدہ دے رہے ہیں اور امریکی صدر اور حکام کی جانب سے اس بات پر زور دیا جارہا کہ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔

اس حوالے سے مائیک پومپیو نے گزشتہ روز اپنے بیان میں سعودی عرب کے ساتھ واشنگٹن کے اسٹریٹجک تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ سعودی عرب انسداد دہشت گردی میں ہمارا اہم ساتھی ہے اور ہمیں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے پاس دو مقدس مقامات کا کنٹرول بھی ہے‘۔

جمال خاشقجی کا معاملہ

خیال رہے کہ امریکا میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کا مرکز بنے جب 2 اکتوبر کووہ ترکی میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل تو ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے بارے میں خیال کیا جانے لگا کہ انہیں قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو سفارت خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

سعودی حکام نے ترک ذرائع کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل سفارتخانے کی عمارت سے باہر جا چکے تھے۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ خاشقجی کی صحافت سعودی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں تھی، لیکن ان کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے انہیں بعض اہم معاملات سے متعلق علم تھا۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا گیا اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی بعدازاں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 7 منٹ کے اندر جمال خاشقجی کی موت واقع ہوگئی، انہیں سعودی قونصلر کے آفس کے برابر میں موجود لائبریری میں لایا گیا اور اسٹڈی ٹیبل پر لٹا کر کوئی بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں۔

ترک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی جنرل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ میں فرانزک شواہد کے ہیڈ صلاح محمد الطوبیگے نے مبینہ طور پر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔

بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔