فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ پھانسی اور عمر قید کے 74 ملزمان رہا کرنے کا حکم
پشاور ہائی کورٹ نے ملٹری کورٹس سے سزائے موت اور عمر قید کی سزا پانے والے 74 ملزمان کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے ملزمان کی رہائی کے احکامات جاری کردیے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس لال جان خٹک نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ملزمان کی اپیلوں پر سماعت کی۔
واضح رہے کہ ملزمان کو فوجی عدالت نے دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث ہونے پر سزائیں سنائی تھیں۔
تاہم ہائی کورٹ میں ملزمان کے خلاف جرم ثابت نہ ہونے پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سزائیں کالعدم کردیں۔
ڈان نیوز کو موصول ہونے والے 2 ملزمان کی عدالتی کارروائی کے مطابق دیر کے رہائشی زور آور خان نے اپنے چچا گل فراز کو فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی جانے والی سزائے موت کی سزا کے خلاف آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت پٹیشن دائر کی تھی۔
ملزم کے وکیل شبیر حسین کا کہنا تھا کہ ان کے موکل پر کلے مردان میں جنازہ گاہ میں خود کش دھماکے، جس میں رکن خیبر پختونخوا اسمبلی عمران محمد سمیت درجنوں افراد شہید ہوئے تھے، کی تیاری کرنے اور سہولت کاری کا الزام تھا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم کے اعترافی بیان جو اس کے حراست کے کئی سالوں بعد ریکارڈ کیا گیا تھا کہ علاوہ کوئی شواہد موجود نہیں تھے۔
وکیل نے مزید بتایا کہ ہنگو کے احسان اللہ کی جانب سے ان کے چچا کی سزائے موت کے خلاف آرٹیکل 199 کے تحت دائر پٹیشن پر بھی عدالت نے گرفتاری کے سالوں بعد ریکارڈ کیے گئے اعترافی بیان کے علاوہ کوئی شواہد نہ موجود ہونے پر بری کردیا۔
ان پر 2009، 2010 میں ہونے والے خودکش حملوں کی معاونت کرنے اور 2011 میں پولیس اہلکاروں پر حملے میں بھی سہولت کاری کا الزام عائد تھا۔
خیال رہے کہ یہ دونوں افراد ان 74 افراد میں شامل ہیں جنہیں عدالت نے آج بری کرنے کے احکامات جاری کیے۔
واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرموں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی افراد کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔
جنوری 2015 میں پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کرکے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی، جب کہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔
رواں سال 22 جنوری کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا تھا اور فریقین کو نوٹسز جاری کیے تھے۔
18 ستمبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے 4 ملزمان کو ملنے والی موت کی سزاؤں پر عملدرآمد عبوری طور پر روک دیا تھا۔19 ستمبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مزید 3 ملزمان کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم دے دیا تھا۔
26 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں سے سزایافتہ 2 ملزمان کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا تھا۔
15 اکتوبر کو بھی سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے الزامات میں فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 4 ملزمان کی اپیلیں سماعت کے لیے منظور کیں۔