فخر زمان کے لیے منزل اتنی آسان نہیں جتنا آغاز رہا
کہنے والے کہتے ہیں کہ کرکٹ کے افق پر فخر زمان کی صورت میں ایک اور ستارہ ابھر رہا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی میں شاندار و یادگار کارکردگی کی بنیاد پر فخر زمان ایک روزہ کرکٹ میں کسی حد تک تو اپنا لوہا منوا ہی چکے تھے لیکن ایشیا کپ میں بدترین کارکردگی کے بعد ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید اب وہ کچھ طویل عرصے کے لیے ٹیم سے باہر ہوجائیں، لیکن حیران کن طور پر اس خراب کارکردگی کے باوجود بھی کپتان سرفراز احمد کے اعتماد کی بدولت نہ صرف وہ ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ بنے بلکہ موقع ملنے پر اس شمولیت کو کسی حد تک درست بھی ثابت کردیا۔
معاملہ یہ ہے کہ فخر زمان کو ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور ٹیم مینجمنٹ شاید ان کو ٹیسٹ کھلاتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی بلکہ ایک موقعے پر تو انہیں متحدہ عرب امارات میں ہونے والی سیریز کے 18 رکنی اسکواڈ سے ڈراپ کرکے پاکستان واپس بھیجنے کے لیے پَر تول رہی تھی لیکن، کپتان کے اعتماد کے سبب ایسا نہ ہوسکا۔
پڑھیے: گاؤں میں پابندی سے ’فخر پاکستان‘ تک کا سفر
اگرچہ ٹیسٹ اسکواڈ میں فخر کا نام اب شامل تو کرلیا گیا تھا لیکن ان کے معاملے میں یہ ہی خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ اکثر نوجوان کھلاڑیوں کی طرح یہ بھی بغیر کھیلے ہی واپس آجائیں گے، مگر ان کا نصیب شاید کچھ زیادہ ہی اچھا تھا کیونکہ دبئی ٹیسٹ میں دونوں اننگز میں اچھی کارکردگی دکھانے والے امام الحق میچ کے آخری دن فیلڈنگ کے دوران زخمی ہوگئے، اور یہ انجری اس شدت کی تھی کہ اگلا میچ کھیلنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔
اس صورتحال میں ٹیم مینیجمنٹ نے فخر زمان کو ابوظہبی ٹیسٹ میچ میں ڈیبیو کرنے کا موقع دیا اور اس موقعے کا فخر زمان نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں 50 رنز سے زیادہ رنز اسکور کرکے اپنا نام کرکٹ ریکارڈ کی کتابوں میں درج کروا لیا۔