افغان کرکٹ ٹیم کا گمنامی سے شہرت کی بلندیوں تک کا سفر
افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور اس کے جذبے، لڑائی کی قوت اور اس کے تباہ کن ہنر نے حال ہی میں ہونے والے ایشیاء کپ میں سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائے رکھی۔ مگر کرکٹ کے میدان میں کچھ کر دکھانے کا افغانستان کا عزم شروع سے ہی نہایت مضبوط تھا۔
25 مارچ 1992ء کو پشاور میں افغان مہاجرین کے ایک کیمپ کے آس پاس کا علاقہ ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھا۔ وہاں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ایک 10 سالہ بچے کو حیرت ہوئی کہ کیا ہو رہا ہے۔ اسے بتایا گیا کہ پاکستان نے کرکٹ کا عالمی کپ جیت لیا ہے۔ اس دن سے وہ لڑکا جو فٹ بال کھیلنے کا شوقین تھا، اب ٹیپ بال کرکٹ کو سنجیدگی سے لینے لگا۔ جلد ہی اسے کرکٹ میں مہارت کی وجہ سے جانا جانے لگا۔ اس کے علاقے کے لوگ اسے نوروز افغانی یا نوروز مہاجر کہتے ہیں مگر اب دنیا اسے نوروز منگل کے نام سے جانتی ہے جو افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رہ چکے ہیں۔
منگل، جو اس وقت افغانستان کرکٹ بورڈ کے چیف سلیکٹر ہیں، ماضی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ "میرا خاندان افغانستان سے پارا چنار منتقل ہوا اور پھر 1988ء یا 89ء میں پشاور کے بڈبیر علاقے میں مقیم ہوگیا۔" منگل چیف سلیکٹر بننے سے قبل اپنے ملک کے لیے 49 ون ڈے انٹرنیشنل اور 32 ٹی 20 انٹرنیشنل کھیل چکے ہیں۔
جب منگل ابھی مہاجرین کے کیمپ میں ٹیپ بال کرکٹ ہی کھیل رہے تھے، تو اس دوران افغانستان میں کسی نے پہلے ہی وہاں کرکٹ ڈھانچے کی بنیاد رکھنی شروع کر دی تھی۔ اللہ داد نوری کرکٹ کے لیے اپنے جذبے اور کابل میں اس کے لیے بنیادی کام کرنے کی وجہ سے 'بابائے افغان کرکٹ' کا لقب حاصل کر چکے ہیں۔
نوری کہتے ہیں کہ "افغانستان میں جنگ کی وجہ سے میرا خاندان بھی 1980ء میں پاکستان منتقل ہوگیا۔ ہم چارسدہ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد مالاکنڈ میں مقیم ہوگئے۔ میں والی بال اور کرکٹ کا اچھا کھلاڑی تھا۔ 92-1991ء کی بات ہے جب مجھے پشاور کے ایک کلب مالک کی نظر مجھ پر پڑی اور یوں میرا کرکٹ کا سفر شروع ہوا۔ سب سے پہلے میں نے کبیر خان، ارشد خان، جاں نثار خان (اب امریکی قومی کرکٹ ٹیم کے رکن) اور فضلِ اکبر درانی کے ساتھ کھیلا۔" 2004 میں ریٹائرمنٹ کے بعد نوری اے سی بی سے منسلک ہوگئے۔
1994ء میں نوری کاروباری معاملات کے لیے افغانستان گئے اور وہاں انہوں نے مقامی اسپورٹس کمیٹی سے ایک کرکٹ ٹیم کی شروعات کے لیے باضابطہ خط کی درخواست کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ "افغانستان میں نقل و حرکت [سیاسی] عدم استحکام کی وجہ سے آسان نہیں تھی مگر پھر بھی میں کئی مرتبہ اسپورٹس کمیٹی کے دفتر کا دورہ کرنے میں کامیاب رہا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ حالات سازگار ہونے تک کرکٹ ٹیم کی تشکیل کے تصور کو روک کر رکھیں۔"
پاکستان میں موجود پرجوش کرکٹر، ان کے بھائی خالق داد نوری نے بھی جلد ہی اپنے بھائی کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ خالق داد بتاتے ہیں کہ "1990 کی دہائی میں افغانستان میں جاری شورش کی وجہ سے ہمارے تربیتی کیمپس پاکستان میں ہوا کرتے تھے۔ پہلے ہم لوگ پشاور جمخانہ گراؤنڈ میں کھیلا کرتے اور بعد میں معمولی فیس ادا کرنے کے بعد عثمانیہ کرکٹ کلب منتقل ہوگئے۔
خالق داد بتاتے ہیں کہ "مگر طالبان دور میں افغانستان واپس منتقل ہونے کے بعد ہم نے فوراً ہی کابل میں وزیر اکبر خان گراؤنڈ میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ اگلا مرحلہ سفید کٹس میں ایک پہلا صوبائی ٹورنامنٹ تھا جس میں کابل، قندھار، خوست، جلال آباد اور کنڑ کی ٹیموں نے حصہ لیا۔" وہ اب جونیئر افغان ٹیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
"ہم نے پہلی ٹرف پچ تیار کی اور اسے سیمنٹ رولر سے رول کیا۔ ہم نے افغانستان کو دنیائے کرکٹ کے نقشے پر لانے کے لیے بے انتہا لگن کے ساتھ کیا ہے۔ ہم نے ایشیئن کرکٹ کونسل (اے سی سی) اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے بھی رابطے شروع کیے۔"