پاکستان

سپریم کورٹ کا ملک بھر میں غیر قانونی بل بورڈز ہٹانے کا حکم

بل بورڈز انسانی حقوق کے لیے خطرہ ہیں اورانہیں عوامی مقامات پر نہیں لگایا جاسکتا، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
|

سپریم کورٹ نے ملک بھر عوامی مقامات پر لگے غیر قانونی بل بورڈز کو ڈیڑھ ماہ میں ہٹانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے بل بورڈز سے متعلق درخواست پر سماعت کی، اس دوران ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)، پارکس اینڈ ہارٹی کلچر (پی ایچ اے)، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کنٹونمنٹ بورڈ کے وکلا پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں بل بورڈز ہٹانے کا فیصلہ دیا تھا اور یہ فیصلہ آرٹیکل 25 کے تحت دیا گیا تھا، لہٰذا یہ معاملہ بھی اسی آرٹیکل کے تحت آتا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: کراچی میں تشہیری دیواریں منہدم کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے کہا کہ بل بورڈ ہٹانے سے کراچی بہت صاف ستھرا ہوگیا ہے، شہر قائد کے فیصلے کو پورے ملک پر لاگو کردیں گے۔

دوران سماعت کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ کہ کراچی میں بل بورڈز پر پابندی حادثے کے بعد لگائی گئی، لاہور کنٹونمنٹ میں معیار کے مطابق بل بورڈ لگائے جاتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کنٹونمنٹ بورڈ بھی پاکستان کا حصہ ہے۔

اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم بل بورڈز کی کمائی سے ہسپتال چلاتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمائی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، بل بورڈز انسانی حقوق کے لیے خطرہ ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے، پی ایچ اے، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ کی حدود میں بل بورڈز لگے ہیں، بتائیں کس انتظامی حصے میں بل بورڈز کا مسئلہ ہے؟۔

اس پر وکیل ڈی ایچ اے نے بتایا کہ ڈی ایچ اے میں بل بورڈز قانون کے مطابق ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ڈی ایچ اے سپریم کورٹ کے تحت نہیں آتا، کیا وہاں کی زمین عوامی مقام نہیں؟ بل بورڈ کا رول تمام جگہوں پر لاگو ہوگا۔

اس دوران نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے وکیل نے بتایا کہ این ایچ اے کی ملکیت پر بل بورڈز لگے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا این ایچ اے کوئی نجی کمپنی ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بل بورڈز شہر کے بل بورڈز شہر کی زمین کی تزئین کو خراب کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں جو حکم دیا تھا کہ سڑکوں سے بل بورڈ ہٹائے جائیں، یہ حکم یہاں بھی لاگو ہوگا اور اس حکم کے مطابق عوامی مقامات پر بل بورڈز نہیں لگ سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے بل بورڈ لگانے ہیں تو ذاتی ملکیت کی جگہ پر لگائے، فٹ پاتھ عوام کے چلنے کے لیے ہیں، ان پر بل بورڈز کے لیے بڑے بڑے کھمبے لگا دیے گئے، اس پر وکیل پی ایچ اے نے کہا کہ ہم نے کوئی بل بورڈ عوامی مقامات پر نہیں لگایا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ عوام کی جان کے لیے بھی خطرہ ہیں، جس پر وکیل ڈی ایچ اے نے کہا کہ ہم قانون کے مطابق بل بورڈز کی اجازت دیتے ہیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سڑک پر کیسے اجازت دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تشہیری مہم ازخود نوٹس: عوام کے پیسوں کا حساب دینا ہوگا، چیف جسٹس

بعد ازاں وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے حکم دیا کہ ڈیڑھ ماہ میں ملک بھر میں تمام غیر قانونی بل بورڈز ہٹائے جائیں۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ کسی بھی عوامی مقام پر بل بورڈ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں عمارتوں اور شاہراہوں پر لگے بل بورڈز کو ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ رواں سال جون میں عدالت عظمیٰ نے شہر قائد میں شاہراہ فیصل سمیت تمام شاہراہوں پر اشتہاری مقاصد کے لیے بنائی گئیں دیواروں کو منہدم کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ اس مقصد کے لیے دیواریں بنانے پر پابندی عائد کردی تھی۔