دنیا

’پرتشدد تفتیش کے دوران سعودی صحافی کے ٹکڑے کیے گئے‘

لائبریری کی ٹیبل پر لٹا کر انہیں بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں، ترک اخبار کا دعویٰ

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی میں نیا انکشاف سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا تھا۔

ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا گیا اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی بعدازاں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ذرائع نے دعویٰ کیا کہ 7 منٹ کے اندر جمال خاشقجی کی موت واقع ہوگئی، انہیں سعودی قونصلر کے آفس کے برابر میں موجود لائبریری میں لایا گیا اور اسٹڈی ٹیبل پر لٹا کر کوئی بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں۔

ترک اخبار نے ذرائع سے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی جنرل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ میں فرانزک شواہد کے ہیڈ صلاح محمد الطوبیگے نے مبینہ طور پر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنا شروع کیا, اس دوران انہوں نے خود بھی کانوں میں ایئر فون لگا رکھے تھے جبکہ وہ دیگر افراد کو بھی ائیر فون لگانے کی ہدایت دیتے ہوئے سنے گئے۔

دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ ترک حکام کی جانب سے صحافی کی مبینہ گمشدگی میں ملوث مشتبہ افراد کی شناخت میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے ایک شخص سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا قریبی ساتھی ہے۔

امریکی اخبار کی خصوصی رپورٹ کے مطابق مذکورہ شخص کو پیرس اور میڈرڈ میں ولی عہد کے ہمراہ ہوائی جہاز سے باہر آتے ہوئے دیکھا گیا تھا جبکہ رواں برس ان کے امریکا کے دورے کے موقع پر تصاویر میں اسے سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ کھڑا دیکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کی گمشدگی: آئی ایم ایف سربراہ نے دورہ سعودی عرب ملتوی کردیا

اس کے علاوہ گواہان اور ریکارڈ کی مدد سے دیگر 3 افراد کا بھی سعودی ولی عہد کے حفاظتی دستے سے منسلک ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جبکہ پانچواں شخص ایک فرانزک ڈاکٹر ہے جو سعودی وزارت داخلہ اور شعبہ صحت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، اتنی اہم شخصیت کو صرف اعلیٰ سعودی حکام کی جانب سے ہی ہدایت دی جاسکتی ہے۔

چناچہ ترکی کے دعوے کے مطابق اگر یہ افراد اس وقت سعودی قونصل خانے میں موجود تھے جب جمال خاشقجی لاپتہ ہوئے تو یقیناً یہ افراد مذکورہ واقعے سے سعودی ولی عہد کے براہ راست کسی تعلق کے بارے میں معلومات دے سکتے ہیں۔

رپورٹ سے اس دعویٰ کی بھی تردید ہوتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ صحافی کے قتل میں نامعلوم قاتل ملوث ہوسکتے ہیں، اور اب سعودی ولی عہد کا مبینہ طور پر براہ راست تعلق سے وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے لیے دیگر وضاحتوں پر یقین کرنا مشکل ہوگا۔

مزید پڑھیں: سعودی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والا صحافی 'ترکی سے لاپتہ'

امریکی اخبار نے اپنے آزادانہ ذرائع اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 15 میں سے کم از کم 9 مشتبہ افراد کی شناخت ہوگئی ہے جن کا تعلق سعودی سیکیورٹی، فوج اور دیگر محکموں سے ہے۔

ان مشتبہ افراد میں سے ایک مہر عبدالعزیزمتریب کو لندن میں موجود سعودی سفارت خانے نے 2007 میں سفارت کار کے طور پر نامزد کیا تھا جبکہ وہ ولی عہد کے ساتھ اکثر سفر پر نظر آتے ہیں۔

واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی فرماں جمال خاشقجی کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات سے انکار کرچکے ہیں اوراس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ صحافی سفارتخانے سے واپس چلے گئے تھے۔

دوسری جانب بڑے امریکی کاروباری گروپس ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں شمولیت سے دستبرداری کا فیصلہ کرچکے ہیں جبکہ کانگریس اراکین سعودی عرب پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی مطالبہ کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘لاپتہ صحافی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا’

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سعودی عرب صحافی کے قتل کا اعتراف کرنے کی تیاری کررہا ہے جس میں ممکنہ طور پر ایک حساس اہلکار کو قصوروار ٹہرایا جاسکتا ہے جس کی تفتیش کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔

دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا ترک عہدیدار کا حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے تاہم انہوں نے لاش کو ٹھکانے لگانے کے طریقے کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریز کیا۔