ضمنی انتخابات: موروثیت کے گہرے سائے اور کچھ اُمید کی کرنیں
ضمنی انتخابات کے اثرات براہ راست حکومت پر نہیں ہوتے لیکن ان سے یہ ضرور پتا چل جاتا ہے کہ مسند اقتدار پر براجمان حکمرانوں کی مقبولیت کا گراف کتنا اوپر اور کتنا نیچے گیا ہے۔
14 اکتوبر کو قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلیوں کے 24 حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے، قومی اسمبلی کی 11 نشستوں میں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 4، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 4 ،مسلم لیگ (ق) نے 2 اور متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے ایک سیٹ حاصل کی۔
ملکی تاریخ میں یہ پہلے ضمنی انتخابات ہیں جن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اکثریت کا تعلق بااثر سیاسی خاندانوں سے ہے۔
ضمنی انتخابات 2018 کی اہم اور خاص باتیں ذیل میں قارئین کی پیش خدمت ہیں۔
پہلی بار رکن اسمبلی بننے والے بااثر سیاسی خاندانوں کے سپوت
ضمنی انتخابات میں موروثی سیاست کا غلبہ رہا، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 35 حلقوں میں اکثر بااثر سیاسی خاندانوں کے افراد ہی کامیاب ہوئے ہیں۔
ان امیدواروں کی اکثریت پی ٹی آئی سے تھی جبکہ دیگر میں چوہدری، گنڈا پور، بلور، لغاری، خٹک سمیت طاقتور خانوادے سے تعلق رکھنے والے تھے۔
طاقتور سیاسی پس منظر کے حامل امیدواروں کی تفصیلات ملاحظہ ہوں۔
- مسلم لیگ (ق) کے رہنما، سابق ڈپٹی وزیراعظم اور حال ہی میں اسپیکر پنجاب اسمبلی بننے والے چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے گجرات سے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری مونس الہیٰ پہلی بار قومی اسمبلی کا حصہ بن رہے ہیں، اس سے قبل وہ پنجاب اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔
- اسی طرح وفاقی وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان کے صاحبزادے منصور حیات خان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر این اے 63 راولپنڈی سے پہلی بارایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔
- وزیر ریلوے شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق راولپنڈی کے حلقے این اے 60 سے پی ٹی آئی کے ہی ٹکٹ پر پہلی بار ایوان زیریں میں براجمان ہوں گے۔
- این اے 35 بنوں سے وزیراعظم عمران خان کی خالی نشست پر متحدہ مجلس عمل کے زاہد خان درانی بھی پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، وہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اکرم درانی کے بیٹے ہیں۔
- چکوال سے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری سالک حسین پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں، ان کے والد چوہدری شجاعت حسین ہیں جو وزیراعظم اور متعدد بار وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔
- این اے 53 اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان اور این اے 242 کراچی سے پی ٹی آئی کے عالمگیر خان بھی پہلی بار قومی اسمبلی میں براجمان ہوں گے لیکن ان کا تعلق بااثر سیاسی خاندان سے نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بااثرسیاسی خاندانوں سے تعلق کی بنیاد پر صوبائی اسمبلیوں میں جانے والے امیدواروں کی بھی ایک لمبی فہرست ہیں۔
- خیبرپختونخوا سے نوشہرہ کے 2 حلقوں پی پی 61 اور 64 سے پی ٹی آئی رہنما اور وفاقی وزیردفاع پرویزخٹک کی خالی دونوں نشستوں پر ان کے بھائی لیاقت خان خٹک اور صاحبزادے ابراہیم خٹک کامیاب ہوئے ہیں۔
- اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے خالی کی گئی نشست پر ان کے بھائی عاقب اللہ کے پی صوابی 44 سے جیت گئے۔
- ڈیرہ اسماعیل خان سے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کی خالی نشست پی کے 97 سے ان کے بھائی فیصل امین گنڈا پور جبکہ پی کے 99 سے سابق وزیر اکرام اللہ گنڈا پور کے صاحبزادے آغا خان گنڈاپور فتح یاب ہوئے ہیں۔
اس مرتبہ بھی عمران خان کی دو نشستیں چھن گئیں
سال 2013 کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی 2 نشستیں این اے ون پشاور اور این اے 71 میاںوالی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پاس چلی گئی تھیں۔