یوآن Hi، ڈالر Bye
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی فرماں روا امریکی مدد کے بغیر 2 ہفتے بھی حکومت نہیں کرسکتے۔ اس کے جواب میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک امریکی ادارے کو انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اپنے مفادات کا تحفظ کرنا جانتا ہے اور امریکا سے ہتھیار مفت میں نہیں خریدتا۔
امریکا اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات میں یہ سب سے زیادہ کشیدہ صورتحال اور اتحادیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کھلے عام سخت الفاظ کے تبادلے کا پہلا موقع ہے اور یہ موقع پیدا اس لیے ہوا کیونکہ امریکا کو اپنا پیٹرو ڈالر خطرے میں نظر آرہا ہے۔
سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار اب چین بن گیا ہے اور چین کی خواہش ہے کہ وہ امریکی ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی یوآن میں ایندھن کی خریداری کرے۔ اسی حوالے سے یہ کشیدگی پیدا ہورہی ہے۔ اس سے پہلے کہ پیٹرو ڈالر کی موجودہ سیاست اور اس میں پاکستان کے کردار پر بات کی جائے، پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ پیٹرو ڈالر کا جنم کس طرح ہوا۔
دوسری جنگِ عظیم کا خاتمہ قریب تھا۔ جنگ نے یورپ کی معیشت کو بدحال کردیا تھا اور اس کا انفرااسٹرکچر، افرادی قوت اور معیشت سب زمین بوس ہوچکے تھے۔ روس بھی اس جنگ سے بُری طرح گھائل تھا۔ ایسے میں مغربی اتحاد میں صرف امریکا تھا جس کی معیشت نہ صرف جنگ سے محفوظ رہی بلکہ جنگ کے باوجود امریکی عسکری طاقت میں اضافہ ہوا تھا۔
ایسے میں دنیا کو ترقی دینے کے لیے مارشل پلان ترتیب دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی 1944ء میں عالمی رہنماؤں کا برطانیہ میں ایک اجلاس ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ لندن عالمی مالیاتی لین دین کا مرکز ہوگا مگر امریکی ڈالر کو عالمی اجناس اور کموڈیٹیز (سونا، چاندی، تیل وغیرہ) کی خریداری میں کلیدی کرنسی کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس معاہدے کو بریٹن ووڈز ایگریمنٹ (Bretton Woods Agreement) کہا جاتا ہے۔
امریکی ڈالر کی قدر 35 ڈالر فی اونس سونے کے مساوی مقرر کی گئی۔ معاہدے میں شامل تھا کہ امریکا اپنے پاس موجود سونے کے مساوی ہی ڈالر کی چھپائی کرے گا اور جب بھی ڈالر کے عوض سونا طلب کیا جائے گا، امریکا یہ سونا دینے کا پابند ہوگا۔ معاہدے میں امریکا نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ اتنا ہی ڈالر چھاپے گا جتنا اس کے پاس سونا ہوگا۔ مگر امریکی فیڈرل ریزرو نے کبھی بھی معاہدے میں شامل ملکوں کو ڈالر کی چھپائی اور زیرِ گردش ڈالروں سے متعلق تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی غیر جانبدار آڈٹ کروایا گیا۔ عالمی لین دین میں یہ نظام 1971ء تک چلتا رہا۔