زینب قتل کیس: مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست پر سیکریٹری داخلہ کو نوٹس
لاہورہائیکورٹ نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست پر سیکریٹری داخلہ پنجاب کو نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس سردار شمیم احمد خان اور جسٹس شہباز علی رضوی پر مشتمل بینچ نے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے سےمتعلق درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت وکیل اشتیاق چوہدری نے موقف اپنایا کہ مجرم عمران ’سیریل کلر‘ ہے اور بدھ 17 اکتوبر کو اسے پھانسی دی جانی ہے۔
تاہم اس پر عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ مرکزی مقدمہ آج مقرر نہیں ہیں، لہٰذا کل (منگل) کو اس پر سماعت کریں گے۔
مزید پڑھیں: زینب قتل کیس: مجرم عمران کو 17 اکتوبر کو پھانسی دی جائے گی
بعد ازاں عدالت نے اس معاملے پر سیکریٹری داخلہ پنجاب کو کل کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
واضح رہے کہ عدالت میں زینب کے والد حاجی امین کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں سیکریٹری داخلہ، انسپکٹرل جنرل (آئی جی) پنجاب اور مجرم عمران کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا یے کہ مجرم عمران کی تمام اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں اور مجرم کے ڈیتھ وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق سپریم کورٹ سے بھی مجرم عمران کی اپیل خارج ہوچکی ہے، لہٰذا انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 22 کے مجرم کو سرعام پھانسی دی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ 12 اکتوبر کو انسداد دہشت گردی عدالت نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کے ڈیتھ وارنٹ جاری کردیے تھے، جس کے مطابق مجرم کو 17اکتوبر کو پھانسی دی جائے گی۔ڈیتھ وارنٹ کے مطابق مجرم عمران کو بدھ 17 اکتوبر کو سینٹرل جیل لاہور میں تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔
خیال رہے کہ زینب سمیت مختلف بچیوں کے قاتل عمران کو مجموعی طور پر 21 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
زینب قتل کیس میں کب کیا ہوا؟
یاد رہے کہ قصور میں 4 جنوری کو لاپتہ ہونے والی 6 سالہ زینب کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا نوٹس لیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔
پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی تھی اور ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد کی موجودگی میں پریس کانفرنس کی تھی اور ملزم کی گرفتاری اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عمران کو زینب قتل کیس میں ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ملزم عمران کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس کے مجرم کی سزا پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب
17 فروری کو اے ٹی سی نے زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 41 لاکھ روپے جرمانے بھی عائد کیا تھا۔
جس کے بعد زینب قتل کیس کے مجرم عمران نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی سزا کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی تھی، لیکن لاہور ہائی کورٹ نے مجرم عمران کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
بعد ازاں مجرم عمران نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جہاں بھی مجرم کے خلاف فیصلہ سامنے آیا تھا۔