دنیا

امریکا افغانستان سے فوج کے انخلا پر مذاکرات کیلئے راضی ہوگیا، طالبان

6 رکنی امریکی وفد ہمارے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے دوحہ آیا، جہاں مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا، طالبان عہدیدار

دوحہ: افغان طالبان کے حکام نے کہا ہے کہ امریکا، افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا پر بات چیت کرنے کو رضا مند ہوگیا ہے۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق دوحہ میں طالبان کے نمائندوں سے براہ راست ملاقات میں امریکا نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

اس حوالے سے طالبان کے 2 عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیزہ کو بتایا کہ امریکی سفیر زلمے خلیل زاد سے طالبان نمائندوں کی ملاقات میں افغانستان میں 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کی شرائط پر تبادلہ خیال کیا۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’6 رکنی امریکی وفد ہمارے طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے لیے دوحہ آیا، جہاں وہ غیر ملکی فوج کے انخلا سمیت تمام معاملات پر بات چیت کرنے پر راضی ہوا، لیکن یہ ایک ابتدائی ملاقات تھی جس میں تمام معاملات پر تفصیل کے بجائے عام طور پر تبادلہ خیال ہوا، اس سلسلے میں مستقبل میں مزید مذاکرات متوقع ہیں‘۔

مزید پڑھیں: افغان جنگ کے خاتمے کیلئے امریکی نمائندے کی طالبان سے ملاقات

خیال رہے گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ کیا تھا اور اس وقت تقریباً 14 ہزار امریکی فوجی وہاں موجود ہیں جبکہ طالبان نے پہلے یہ بات کہی تھی کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی موجود امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

طالبان کی جانب سے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے علاوہ جو شرائط ہیں، ان میں طالبان قیادت پر پابندیوں کا خاتمہ، افغانستان میں قید ان کے جنگجوؤں کی رہائی اور باقاعدہ طور پر ایک سیاسی دفتر کا قیام شامل ہے۔

واضح رہے کہ 2013 میں امریکا کی درخواست پر امن مذاکرات کے لیے دوحہ میں طالبان کا دفتر قائم کیا گیا تھا لیکن اسے جلد ہی اس وقت بند کرنا پڑا جب اس دفتر کے باہر لگے جھنڈے کے باعث دباؤ کا سامنا کڑنا پڑا کیونکہ یہ وہی جھنڈا تھا جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران لہرایا گیا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دینے کے باوجود طالبان نے افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کیا تھا اور افغان حکومت کو ’امریکی کٹھ پتلی‘ قرار دیا تھا۔

افغان طالبان کئی مرتبہ امریکا سے براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، جس کے بعد جولائی 2018 میں امریکا کی جانب سے طالبان سے براہ راست مذاکرات کا اعلان کیا گیا تھا۔

بعد ازاں اس سلسلے میں دونوں فریقین کے مابین قطر میں رسمی ملاقات بھی ہوئی تھی جبکہ امریکا نے افغانستان میں امریکی سفیر خلیل زاد کو رواں ماہ 4 اکتوبر کو نمائندہ خصوصی کی ذمے داری سونپی تھی۔

امریکا اور طالبان نمائندوں کے درمیان ملاقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے طالبان کے سابق سفیر عبدالسلام ضعیف جو اس وقت دوحہ میں موجود ہیں، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکا نے افغانسان سے فوج کے انخلا کے معاملے پر تبادلہ خیال کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’امریکی حکام اور طالبان کے درمیان براہِ راست پہلی ملاقات‘

انہوں نے کہا کہ وہ ملاقات میں موجود نہیں تھے لیکن غیر ملکی فوجیوں کے انخلا پر اب صرف عمل درآمد کے لیے وقت درکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ میری اطلاع کے مطابق امریکا طالبان کے ساتھ افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا کے معاہدے تک پہنچ گیا ہے لیکن امریکی حکام اب تک کوئی تاریخ پر رضا مند نہیں ہوئے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’امریکا کو یہ بات باور ہوگئی ہے کہ وہ افغانستان میں جیت نہیں رہا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس ملک میں جنگ کےخاتمے کے لیے طالبان کی شرائط پر راضی ہونا ہے‘۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کو یہ خدشہ ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان کا طویل مدتی تنازع ختم نہیں ہوگا۔