نقطہ نظر

’ڈولی سجا کے رکھنا، لینے تجھ سے پیسے، آئیں گے میرے سجنا‘

ڈالر اوپر نہیں گیا بلکہ خان صاحب کے آنے کی خوشی میں روپیہ سجدہ شکر میں گرگیا، اب خوشی زیادہ ہے اسلیے سجدہ کچھ طویل ہوگیا

حکومت کے پہلے 100 دن جاری ہیں، مگر جانے کیوں عوام کو یہ اپنے آخری 100 دن لگ رہے ہیں۔ ایسا لوگ کہتے ہیں، اور 'لوگوں کا کام ہے کہنا'، ہم تو خدا لگتی کہتے ہیں چاہے کسی کے کلیجے میں لگے۔

ہمیں یقین ہے کہ ان 100 دنوں کے بعد وہ دن آئے گا دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، اُن کے منشور میں لکھا ہے، بلکہ ہم تو ایک ایک کو پکڑ پکڑ کر اس کے آنسو اور کبھی کبھی ناک بھی پونچھتے ہیں اور گا گا کر دلاسا دیتے ہیں 'چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز'۔

یہ تسلی تو دوسروں کے لیے ہے، ورنہ ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ تبدیلی آچکی، بہار آگئی، سویرا ہوگیا، نیا پاکستان بن گیا. ہم تو یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ باقی کے دن اور پورے 5 سال عمران خان مع سیاسی خاندان کیا کریں گے؟ ہوسکتا ہے پھر اقوام متحدہ انہیں نیا افغانستان، نیا شام، نیا یمن بنانے کا مشن سونپ دے۔

دوسروں کی رائے کچھ بھی ہو، ہم تو حکومت کی کارکردگی اور اقدامات سے بہت خوش اور پوری طرح مطمئن ہیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے، چنانچہ ہم اپنی مسرت اور اطمینان میں آپ سب کو شریک کرنا چاہتے ہیں۔

یوں تو حکومت کی ترجمانی فواد چوہدری صاحب کی زبانی بلکہ بدزبانی ہی اچھی لگتی ہے، لیکن وہ اکیلے کب تک اور کس حد تک حکومت کا دفاع کرتے رہیں گے؟ ابھی تو پرویز مشرف، (ق) لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دفاع کی تھکاوٹ بھی دور نہ ہوئی ہوگی کہ انہیں تحریک انصاف سرکار کے دفاع یعنی ڈھال، تلوار اور ترکش کا بوجھ اٹھانا پڑگیا، سو ہم نے سوچا کیوں نہ کچھ دفاعی بوجھ ہم بھی اٹھا کر ‘فوائد چوہدری’ بننے کی سعی کریں؟

تو صاحب بات شروع کرتے ہیں آئی ایم ایف جانے سے، جہاں تحریک انصاف کی حکومت کے جانے پر بعض لوگوں نے گانا شروع کردیا، ‘ترا جانا، دل کے ارمانوں کا لُٹ جانا’، حالانکہ انہیں گانا چاہیے تھا ‘ڈولی سجا کے رکھنا، مہندی لگا کے رکھنا، لینے کو تجھ سے پیسے، آئیں گے میرے سجنا۔’

پڑھیے: کیا پی ٹی آئی کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن ہے؟

بھئی پیسے پیسے ہوتے ہیں محنت کی کمائی ہو، قرضہ ہو یا بھیک، جو رقم ملے وہ ٹھیک۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ خان صاحب نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے وہ خودکشی کرلیں، لیکن وہ عمران خان ہیں سلمان خان تھوڑی کہ ایک بار کمٹمنٹ کرلیں تو اپنی بھی نہ سُنیں، وہ تو دوسروں کی بھی سُن لیتے ہیں، بلکہ سُنی سنائی پر بھی یقین کرلیتے ہیں،

بقول شخصے انہوں نے 100 دن کا پلان بھی اس لیے دیا تھا کہ کسی سے سُن لیا ہوگا کہ یہ دنیا چار دن کی ہے۔ انہیں جب شاہ محمود قریشی نے پیار سے سمجھایا ہوگا، ‘خان صاحب! خودکشی کرکے آدمی مرجاتا ہے’ تو وہ ‘اوئے نئیں، اچھا؟’ کہہ کر اپنے ارادے سے باز آگئے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ خان صاحب نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے وہ خودکشی کرلیں، لیکن وہ عمران خان ہیں سلمان خان تھوڑی کہ ایک بار کمٹمنٹ کرلیں تو اپنی بھی نہ سُنیں، وہ تو دوسروں کی بھی سُن لیتے ہیں، بلکہ سُنی سنائی پر بھی یقین کرلیتے ہیں،

پھر انہوں نے اسد عمر سے سُنا،’آئی ایم ایف کے پاس جاکر کچھ دنوں کے لیے کام نکل جاتا ہے’ اور ان کی بات سُن کر بھی مان لی۔ پس تو ثابت ہوا کہ ہمارے وزیرِاعظم بولنے کے لیے اپنی زبان استعمال کرتے ہیں لیکن صد شکر کہ سوچنے کے لیے دوسروں کے دماغ کام میں لاتے ہیں، یہیں سے مشہورِ زمانہ یوٹرن وجود میں آتے ہیں اور وہ چلتے چلتے اچانک مُڑ جاتے ہیں۔

ویسے یوں اچانک موڑ کاٹنا ہر ڈرائیور کے بس کی بات نہیں۔ اب آپ ہی سوچیے عوام کی خاطر آئی ایم ایف کے دفتر جانے کے لیے یوٹرن لے کر وزیراعظم نے کتنا خطرہ مول لیا، ٹائروں سے’چیں ں ں ں ں ں’ کی آواز نکلی اور سواریوں کی چیخیں نکل گئیں۔ عین موڑ پر خودکشی والا گڑھا بھی تھا لیکن خان صاحب نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ بس انہیں فکر تھی تو یہ کہ کسی طرح ‘قوم بِٹیا’ کے لیے ‘پیہے’ لے آؤں۔ بات صاف ہے، اب عوام سے اتنی محبت کرنے اور اس کی خاطر جان جوکھم میں ڈال لینے والے وزیرِاعظم کو طعنے دینا کہاں کا انصاف ہے؟

پڑھیے: عمران خان کے نام وزیرِاعظم ہاؤس کی بھینسوں کا خط

اب جہاں تک تعلق ہے منہگائی بڑھنے کا، تو اس کا سبب بس اتنا ہے کہ جب سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے ملک میں موجود ہر شے یہ سوچ کر مغرور ہوگئی ہے کہ ’میں اس دیس کی باسی ہوں جس دیس کا عمراں راجا ہے’، سو سی این جی سمیت ہر شے نے صاف کہہ دیا ہے، بھیا! ہم وزیرِاعظم عمران خان کے ملک کی چیز ہیں، کوئی ناچیز نہیں، تو دماغ آسمان پر کیوں نہ چڑھیں، دام کیوں نہ بڑھیں، یوں بھی یہ نیا پاکستان ہے، اب تم ہی بتاؤ نئی چیز مہنگی ہوتی ہے یا سستی؟

عوام بس کچھ دن صبر کریں، ان اشیاء کا غرور جوں ہی شرمندگی میں بدلے گا، ان کے دام خود نیچے آجائیں گے۔

رہی بات ڈالر کے اوپر جانے اور روپے کے نیچے آنے کی، تو میرے بھائی! ڈالر اوپر نہیں گیا، ہوا یوں کہ خان صاحب کے حکومت میں آنے کی خوشی میں روپیہ سجدہءِ شکر میں گرا ہے، خوشی زیادہ تھی اس لیے سجدہ بھی طویل ہوگیا ہے۔

پنجاب میں آئی جی کے تبادلے کی کوشش کو بھی تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ عہدہ کہلاتا ہی ‘آئی جی’ ہے، اس لیے جہاں کے لیے پکارا جائے ‘آئی جی’ کہتے ہوئے لبیک کہا جائے۔

رہی بات ڈالر کے اوپر جانے اور روپے کے نیچے آنے کی، تو میرے بھائی! ڈالر اوپر نہیں گیا، ہوا یوں کہ خان صاحب کے حکومت میں آنے کی خوشی میں روپیہ سجدہءِ شکر میں گرا ہے، خوشی زیادہ تھی اس لیے سجدہ بھی طویل ہوگیا ہے۔

ہم حکومت کو تجویز پیش کریں گے کہ اس عہدے پر کیوں کہ اکثر حضرات فائز ہوتے ہیں، چنانچہ اسے آئی جی کہنا مناسب نہیں، اسی وجہ سے تو ‘آئی جی’ سمجھ نہیں پاتے کہ انہیں ہر حکم من و عن ماننا ہے۔ اچھا ہوگا کہ اس منصب کو ‘آیا جی’ کردیا جائے، یوں مفہوم بھی واضح ہوجائے گا اور پولیس میں تبدیلی بھی نظر آئے گی۔

اس معاملے پر بھی ناقدین نے بلاوجہ حکومت کے لَتّے لیے، حالانکہ خان صاحب نے ہمیشہ یہ کہا تھا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں ہوگی، یہ کب کہا تھا کہ غیر سیاسی مداخلت بھی نہیں ہوگی؟

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔