نقطہ نظر

کیا پی ٹی آئی کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن ہے؟

لگتا ہے حکومت میں آنے کے بعد پی ٹی آئی قیادت اتنی بہادری کا مظاہرہ نہیں کرپائی جتنی بہادری اس نے اپوزیشن میں دکھائی تھی

اس وقت ملک میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ہے اور عمران خان وزیر اعظم ہیں، مگر نئے پاکستان میں معیشت کے حوالے سے عوام میں جو مایوسی پائی جاتی ہے وہ آج سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ عوام خوف میں مبتلا ہیں کہ معیشت کا حال کیا ہوگا؟ لہٰذا حکومت نے اس پریشانی کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (International Monetary Fund) یا آئی ایم ایف سے بھاری شرائط پر قرضہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔

اب سوال یہ ہے کہ نئے پاکستان کی دعویدار حکومت کے پاس آئی ایم ایف میں جائے بغیر معاشی مشکل سے نکلنے کا کوئی حل موجود ہے یا نہیں؟

اس تحریر میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی، لیکن اس سے پہلے ہم اس بات کا مختصر جائزہ لیں گے کہ معیشت کی صورتحال اس وقت کیا تھی جب عمران خان نے بطور وزیر اعظم عہدے کا چارج سنبھالا۔

پی ٹی آئی حکومت کو کیسی معیشت ملی؟

پاکستان گزشتہ 10 سال کے دوران دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ بھی لڑتا رہا ہے اور خصوصاً گزشتہ 5 سال میں آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں پورے قبائلی علاقے میں نہ صرف فوجی آپریشن ہوئے بلکہ ایک بڑی آبادی کا انخلا بھی ہوا۔ امن کے قیام کے بعد آباد کاری بھی شروع ہوچکی ہے، اسی لیے نیوز چینلز کی اسکرین پر دہشت گردی، آئی ڈی پیز یا ان کی آباد کاری کے حوالے سے کوئی خبر نہیں ملتی۔

اس کے باوجود جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی 5.8 فی صد رہی اور یہ معاشی شرح نمو 13 سال کی بلند ترین سطح ہے۔ پاکستان کا مجموعی جی ڈی پی ایک ہزار 141 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ اگر اس کو روپے میں منتقل کریں تو عام کیلکولیٹر میں عدد ختم ہوجائیں گے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان 195 ملکوں میں سے 25ویں درجے پر کھڑا ہے۔

معیشت کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ سہ ماہی جائزے کے مطابق زراعت میں ترقی 3.8 فیصد، صنعت میں 5.8 فیصد، بڑے پیمانے کی اشیاء سازی 6.1 فیصد، خدمات 6.4 فیصد، نجی شعبے کے قرض میں 9.1 فیصد، برآمدات میں 13 فیصد اور درآمدات میں 15.8 فیصد اضافہ ہوا۔ اس تمام ترمعاشی ترقی کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کے محاصل بھی بڑھے اور پاکستان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 ہزار 800 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا۔ جبکہ سال 2007ء میں یہ ٹیکس وصولی ایک ہزار ارب روپے تھی۔

کہیں تحریر بوجھل نہ ہوجائے اس خدشے کے باعث مزید اعداد و شمار سے گریز کرتے ہوئے میں یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ پاکستان میں معیشت بہت زیادہ بُری حالت میں نہیں ہے۔ پاکستان کے تقریباً بیشتر میکرو اکنامک انڈیکیٹرز مثبت ہیں اور معیشت دنیا کے 170 ملکوں سے بہتر ہے۔

پاکستانی معیشت کو کن خطروں اور مسائل نے گھیرا ہوا ہے؟

پاکستان کو سامنا ہے دوہرے خسارے کا، پہلا حکومت کا بجٹ خسارہ اور دوسرا کرنٹ اکاؤنٹ یا رواں کھاتوں کا خسارہ۔ بجٹ خسارہ حکومتی اخراجات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ خسارے کیوں ہورہے ہیں ان پر ماضی کی تحریروں میں کھل کر بات ہوچکی ہے۔

گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ 18 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جو اصل پریشانی کی وجہ ہے اور اسی کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائرمیں تیزی سے کمی ہورہی ہے جو جولائی میں 16 ارب 89 کروڑ ڈالر تھے تاہم کم ہوکر 14 ارب 89 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس طرح موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک زرمبادلہ ذخائر میں 2 ارب ڈالر سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔ گرتے ہوئے زرمبادلہ ذخائر کو سہارا دینے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

قیامِ پاکستان سے لے کر سال 2018ء تک ملک کو جس معاشی چیلنج کا ہمیشہ سے سامنا رہا وہ ہے زرمبادلہ کے ذخائر کا۔ پاکستان کے قیام سے اب تک ملک نے 300 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کیا ہے اور یہ رقم مختلف ملکوں یا عالمی اداروں سے ملنے والی امداد یا قرض سے پوری کی ہے۔

ترکی نے مشکل حالات کے باوجود آئی ایم ایف کا باب کیوں کیا؟

آئی ایم ایف سے قرض لینے کا معاملہ عالمی سیاست اور سفارت کاری کے علاوہ مقامی سیاست کا بھی ہے۔ آئی ایم ایف مغرب کی معاشی سیاست کو کنٹرول کرنے کا ایک ٹول ہے۔ آئی ایم ایف پر امریکا اور مغربی ملکوں کی اجارہ داری ہے۔ یہ قرض لینے والے ملکوں سے نہ صرف مقامی معیشت کو کنٹرول کیا جاتا ہے بلکہ ان ملکوں کی خارجہ پالیسی پر بھی شرائط عائد کی جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ترکی نے معیشت میں حالیہ گراوٹ کے باوجود آئی ایم ایف سے قرض لینے سے انکار کردیا ہے۔ ترکی نے سال 2008ء میں آئی ایم ایف کا پروگرام ختم کیا اور اس کے بعد آئندہ کے پروگرام کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت شروع تو ہوئی لیکن 2 سال بات چیت جاری رہنے کے بعد سال 2010ء میں ترکی نے آئی ایم ایف سے قرض لینے سے انکار کردیا۔ سال 2013ء تک ترکی نے آئی ایم ایف سے لیا گیا تمام قرض واپس کردیا ہے، جس کے بعد سے ترکی اپنے بل بوتے پر معیشت کو چلا رہا ہے اور اس کی معیشت میں بنیادی طور پر استحکام آرہا ہے۔

حالیہ دنوں میں امریکی تجارتی پالیسیوں، شامی مہاجرین کے بحران اور دیگر عوامل کی وجہ سے ترکی کی معیشت شدید بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ امریکا کی کرنسی وار کی وجہ سے ترک کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی ہوئی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر 6.45 فی صد کم ہوگئی ہے۔

اس عمل کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے امریکا کی جانب سے معاشی جنگ قرار دیا ہے۔ ایسے میں مغربی معاشی تجزیہ کاروں نے ترکی کی معیشت کے لیے میلٹ ڈاؤن (Meltdown) کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں۔ ترک حکومت کو مسلسل ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ وہ جلد از جلد آئی ایم ایف پروگرام سے قرض حاصل کرلے، آئی ایم ایف بھی ترکی پر شرائط عائد کرنے اور قرض دینے کے لیے تیار بیٹھا ہے مگر ترکی ہے کہ اس کے دروازے پر دستک ہی نہیں دے رہا ہے۔

معاشی مشکلات کے باوجود ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے چند روز قبل جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے مشاورتی اجلاس سے خطاب میں اعلان کیا کہ ترکی نے آئی ایم ایف کا باب بند کردیا ہے اور اس کو کھولنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ترکی سمیت دنیا کے 11 ملک ایسے ہیں جنہوں نے عالمی مالیاتی فنڈ کے تمام قرض واپس کردیے ہیں۔

عالمی مالیاتی اداروں کو ادائیگیاں کرنے والوں کے علاوہ انکار کرنے والے ملک بھی موجود ہیں۔ اس میں ارجنٹینا کی مثال سب سے اہم ہے جس نے 7 مرتبہ بیرونی قرضوں اور 9 مرتبہ مقامی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ یونان، صومالیہ، سوڈان اور زمبابوے نے بھی آئی ایم ایف کے قرض کی اقساط کی ادائیگی بروقت نہیں کی ہے۔

اس تمام تناظر میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کیا مواقع موجود ہیں:

سمندر پار پاکستانی

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں بیرون ملک مقیم پاکستانی شہریوں کی تعداد 60 لاکھ سے زائد ہے، جن میں سے بڑی تعداد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکا میں مقیم ہے۔ سمندر پار سے کی جانے والی ترسیلات زر میں بھی یہی ملک سرفہرست ہیں۔ پی ٹی آئی یہ دعوی بھی کرتی ہے، جو بڑی حد تک درست بھی ہے، کہ عمران خان سمندر پار پاکستانیوں میں بہت مقبول ہیں اور سمندر پار پاکستانی تحریک انصاف کو سب سے زیادہ فنڈز بھی فراہم کرتے ہیں۔ عمران خان کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر اور اسے چلانے میں بھی سمندر پار پاکستانیوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

حکومت فوری طور پر زرمبادلہ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کی مدد حاصل کرسکتی تھی۔ ان کے لیے ایک بانڈ کا اجرا کرسکتی تھی بلکہ کرسکتی ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو جتنا ادا کرنا ہے اتنا ہی یا اس سے کچھ زائد منافع بانڈ پر دیا جائے۔ اس بانڈ کی خصوصیت یہ ہو کہ اجراء ڈالر، یورو یا برطانوی پاؤنڈ میں کیا جائے مگر اس پر منافع اور اصل زر کی واپسی پاکستانی روپے میں ہو۔ اس طرح سمندر پار پاکستانی جو رقم اپنے گھر والوں کو ہر ماہ ارسال کرتے ہیں اس کے بجائے وہ یہ بانڈ خرید لیں اور رقم خود بہ خود ان کے اہلِ خانہ کو منتقل ہوجائے۔

اس بانڈ کے اجراء میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ زرِمبادلہ ملنے کے ساتھ ساتھ ادائیگی پاکستانی روپے میں ہوگی، یعنی واپسی کے لیے پھر کوئی غیر ملکی قرض کا بوجھ نہیں ہوگا اور سب سے بڑھ کر آئی ایم ایف کی سخت معاشی، سیاسی اور سفارتی شرائط سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔

درآمدات میں کٹوتی

پاکستان کی بیرونی تجارت پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ سال 2018ء میں پاکستان نے 22 ارب ڈالر سے زائد کی مصنوعات برآمد جبکہ 55 ارب 84 کروڑ ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں۔ اس طرح پاکستان کا تجارتی خسارہ 33 ارب 84 کروڑ ڈالر ہے۔ پاکستان کو عالمی تجارت میں ہونے والا خسارہ ہی مجموعی برآمد سے 11 ارب ڈالر زائد ہے۔

سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک اور سابقہ نگران وفاقی وزیرِ خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ پاکستانی کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں اور دنیا بھر سے پنیر، دودھ اور تازہ پھل درآمد کرتے ہیں، جن میں باآسانی کمی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ 18 فیصد ہے مگر ملک کی بڑی آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ سال 2018ء میں پاکستان نے 4 ارب 79 کروڑ ڈالر کی زرعی اجناس کی برآمدات کی جس میں چاول، سمندری خوراک، پھل سبزیاں، چینی، گوشت، چائے کی پتی اور دیگر اشیاء خوردونوش شامل ہیں جبکہ اسی مالی سال پاکستان نے 5 ارب 49 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیاء خورد ونوش درآمد کی جس میں خشک دودھ، کریم، پنیر، گندم، خشک میوہ جات، مصالحے، پام آئل چینی اور دالیں شامل ہیں۔ اس طرح پاکستان کو زرعی ملک ہونے کے باوجود اجناس کی تجارت میں 70 کروڑ ڈالر سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔

اجناس کے درآمد کار اور سابق صدر کراچی ایوانِ تجارت و صنعت ہارون کہتے ہیں کہ غیر ضروری اجناس کی تجارت پر روک لگانا ہوگی۔ موجودہ وزیرِ خزانہ اسد عمر کی تجویز پر مشرف حکومت نے دودھ کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بہت زیادہ آواز اٹھائی تھی اور اس حوالے سے اسد عمر کی کمپنی نے دودھ کی صنعت میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی تھی۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ڈبہ بند دودھ کی کمپنیاں امریکا اور ترکی کا سستا خشک دودھ ملا کر مقامی طور پر فروخت کرتی ہیں۔ کسٹم ڈیٹا اس کی نشاندہی بھی کرتا ہے مگر اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ دالوں کی درآمد بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی طلب جو اس وقت تقریباً 13 ٹن ہے اس میں سے صرف 4 لاکھ ٹن مقامی کاشت کی جاتی ہے جبکہ بقیہ 9 لاکھ ٹن دالیں درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔

بھارت نے اپنے کسانوں کو دالوں کی کاشت پر مراعات دی ہیں جس سے بھارت دالوں کی پیداوار میں خود کفیل ہوگیا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی ماڈل اپنایا جاسکتا ہے اور چند برسوں میں دالوں کی پیداوار مقامی طلب پوری کرنے کے مساوی کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح چائے کی پتی اور خوردنی تیل کی مقامی پیداوار اور کاشت پر مراعات دے کر مقامی طلب کو پورا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں مقامی طور پر سویابین، کارن آئل، سورج مکھی کی کامیاب کاشت ہوتی ہے جسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لیے پاکستانی حکومت کو برآمدات میں اضافے سے بڑھ کر درآمدات میں کمی کی پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔ غذائی اجناس اور غیر ضروری اشیاء کی درآمد روک کر پاکستان تقریباً 10 ارب ڈالر کی بچت کرسکتا ہے۔

انڈر انوائسنگ

پاکستان میں درآمدات میں انڈر اور اوور انوائسنگ معیشت کو بُری طرح چاٹ رہا ہے۔ چین سے ہونے والی درآمدات میں 4 ارب ڈالر کی چوری ہوتی ہے۔ جبکہ دیگر ملکوں کے ساتھ چوری 5 ارب ڈالر ہے۔ انڈر انوائسنگ میں درآمدی اشیاء کی قیمت کم دکھائی جاتی ہے جس کی وجہ سے کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کم ہوجاتی ہے اور ہنڈی حوالے کے ذریعے رقم قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بھجوا کر ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ اس کام میں امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کے دبئی میں قائم دفاتر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت فوری طور پر انڈر انوائسنگ کو ختم کرکے سالانہ تقریباً 9 ارب ڈالر کی بچت کرسکتی ہے۔

ان تمام فوری اقدامات کے علاوہ پاکستان ڈالر کے بجائے چینی کرنسی میں لین دین کو فروغ دے کر بھی ڈالر کی بچت کرسکتا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان کرنسی کے تبادلے کا معاہدہ موجود ہے۔ اس پر درآمدات اور برآمدات کو منتقل کرنا ہوگا جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے فاسٹ فوڈ اور مقامی کھپت کے شعبوں کو بند کرکے ملائیشیا کی طرح صرف ایکسپورٹ کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینا ہوگی۔

اگر پی ٹی آئی کی حکومت مشکل فیصلہ کرنے کا مظاہرہ کرتی تو بہتر ہوتا، مگر لگتا ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت اتنی بہادری کا مظاہرہ نہیں کرپائی ہے جتنی بہادری اس نے اپوزیشن میں دکھائی تھی۔

اگر حکمران جماعت مذکورہ اقدامات اٹھاتی تو اس کو آئی ایم ایف سے سیاسی، معاشی اور سفارتی شرائط ماننے کے علاوہ بھی دیگر ذرائع سے اپنے اخراجات کو پورا کرنے میں مدد مل جاتی۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔