دنیا

بھارت کے اسٹیٹ وزیر خارجہ پر بھی جنسی ہراساں کا الزام

مسلمان وزیر اور سابق صحافی ایم جے اکبر پر متعدد صحافی خواتین نے الزامات عائد کردیے۔

اگرچہ بھارت کی شوبزاور فیشن انڈسٹری کی خواتین گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور نامناسب رویوں پر بات کرتی آ رہی تھیں۔

تاہم گزشتہ ماہ 26 ستمبر کو اداکارہ تنوشری دتہ کی جانب نانا پاٹیکر پر جنسی ہراساں کرنے کے الزامات لگانے کے بعد اب بھارت بھر کی خواتین اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر کھل کر بات کر رہی ہیں۔

تنوشری دتہ کے بعد جہاں اداکارہ کنگنا رناوٹ نے بھی ہدایت کار وکاس بہل پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔

وہیں بھارت کی متعدد خواتین صحافیوں نے بھی مرد ساتھیوں کی جانب سے نامناسب رویوں اور جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق اپنے تجربات سوشل میڈیا پر شیئر کیے تھے۔

خواتین صحافیوں کی جانب سے تجربات سنائے جانے کے بعد گزشتہ روز بھارت کے معروف اخبار ہندوستان ٹائمز نے خواتین کو ہراساں کرنے میں ملوث اپنے ایک سینیئر صحافی ملازم کو بھی ہٹا دیا تھا۔

تاہم اب یہ معاملہ شوبز اور صحافت سے نکل بھارت کی سیاست تک آ پہنچا ہے اور پہلی بار ایک وزیر پر متعدد خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے اور نامناسب رویے کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سابق صحافی، لکھاری اور مملکتی وزیر خارجہ مبشر جاوید (ایم جے) اکبر پر متعدد خواتین صحافیوں نے جنسی طور پر ہراساں کرنے اور نامناسب رویہ اپنانے کے الزامات عائد کردیے۔

رپورٹ کے مطابق ایم جے اکبر کے خلاف سب سے پہلے خاتون صحافی پریا رامانی نے آواز اٹھائی اور انہوں نے گزشتہ برس فیشن میگزین ‘ووگ’ میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون کا لنک بھی دیا۔

پریا رامانی نے انکشاف کیا کہ یہ مضمون انہوں نے ایم جے اکبر کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر ہی لکھا تھا، مگر اس وقت انہوں نے اس میں وزیر کا نام نہیں لکھا تھا۔

اپنے مضمون میں پرایا رامانی نے خود کو ہراساں کرنے والے مرد باس کو مخاطب ہوتے ہوئے نامناسب رویوں اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا ذکر کیا اور آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ایک دن وہ ان سب انصافیوں پر ان سے حساب لیں گی۔

پریا رامانی نے اپنے مضمون میں 1994 کے واقعات کو بیان کیا ہے، اس وقت ان کی عمر 23 جب کہ ایم جے اکبر کی عمر 47 سال تھی۔

پریا رامانی کی جانب سے ایم جے اکبر کے خلاف ٹوئیٹ کیے جانے کے بعد دیگر صحافیوں اور خواتین نے بھی اپنے تجربات شیئر کیے اور مملکتی وزیر خارجہ پر الزامات لگاتے ہوئے ان کے نامناسب رویوں اور نازیبہ گفتگو کے حوالے سے بات کی۔

پریا رامانی کے بعد ایم جے اکبر کے خلاف دیگر کئی خواتین صحافیوں نے بھی الزامات لگائے۔

ایم جے اکبر پر الزام لگانے والی خواتین صحافیوں میں سے بیشتر وہ صحافی ہیں، جنہوں نے کبھی ان کے انٹرویوز کیے یا پھر ان کے ساتھ کام کیا۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق مملکتی وزیر خارجہ پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات کے بعد وزیر خارجہ سشما سوراج سے اسمبلی میں اس معاملے پر سوالات کیے گئے۔

تاہم سشما سوراج نے ایم جے اکبر پر لگائے جانے والے الزامات پر بات کرنے اور کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔

خیال رہے کہ ایم جے اکبر ریاست مدھیا پردیش سے رکن اسمبلی ہیں، وہ نریندر مودی کی حکومت میں مملکتی وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، وہ اس سے قبل بھی رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔

67 سالہ ایم جے اکبر نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی سوانح حیات لکھنے سمیت متعدد سیاسی و ادبی کتابیں لکھیں ہیں، انہوں نے بطور صحافی ‘دی سنڈے گارجین’ کی بنیاد رکھی۔

ایم جے اکبر نے کشمیر کے حوالے سے بھی چند کتابیں لکھی ہیں۔

ان پر لگائے جانے والے الزامات کے مطابق وہ انٹرویو کرنے والی زیادہ تر خواتین صحافیوں کو اپنے انتہائی قریب بیٹھنے، انہیں شراب نوشی کرنے اور بعد ازاں ان کے ساتھ رومانوی انداز میں بات کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، جس وجہ سے خواتین خود کو پرسکون محسوس نہیں کرتی تھیں۔