پچھلے 8 سال یورپ میں سفر کرتے اور گاڑی چلاتے گزرے ہیں، ان میں کم و بیش 10 ہزار کلومیٹر کے سفر اسکینڈے نیویا سے باہر کے ہوں گے۔ ان سبھی راستوں، سڑکوں، چوراہوں پر گاڑی چلانے کے بعد میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کا نظامِ ٹریفک، یورپ سے کم و بیش 70 سال پیچھے ہے۔
ان 8 سالوں میں اشارہ کاٹنے والے، ہارن بجانے والے، اپنی قطار کو توڑنے والے، بند ٹریفک میں اپنی گاڑی آف لائن اتار کر آگے بڑھانے والے شاذ و نادر ہی دیکھے۔ یہاں کی سڑکوں پر ہارن کا شور بھی بہت شرمیلا ہے، کبھی کبھی دن میں ایک 2 دفعہ ہی ہارن کی آواز سنائی دیتی ہے۔ کسی اشارے پر جب اگلی گاڑی والا ڈرائیور فون پر مصروف ہو اور اشارہ کھلنے پر نہ چلے تو پیچھے والے ایک مختصر سے ہارن سے اس کو جگاتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا کہ اگر کوئی ڈرائیور ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہو تو لوگ ہارن کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں، جب کوئی شخص اس حال میں سڑک پر آجائے کہ حادثے کا امکان ہو تب بھی ہارن بجایا جاتا ہے۔ لیکن کسی کو تیز گاڑی بھگانے یا اوورٹیکنگ سے آگاہ کرنے کے لیے ہارن بجانے کا کم از کم یہاں تو کوئی تصور نہیں ہے۔
پاکستان کی طرح تہہ در تہہ ہارن کی آواز سال میں ایک یا 2 بار سنی جاسکتی ہے، کسی ترکی بھائی کی شادی ہو، تو اس کے یار دوست 10 سے 12 گاڑیوں میں ہارن بجاتے شہر کی گلیوں میں سے جا رہے ہوں یا کالج میں پاس ہوجانے والے نوجوان اپنی گریجویشن کو منانے کے لیے ایک ٹرک بک کروا لیتے ہیں اور اس پر بہت سے باجے، ہارن بجاتے اور شور کرتے نظر آتے ہیں، لیکن عام حالات میں ٹریفک کے ماحول میں بے ہنگم شور اور ہارن کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ 10، 10 کلومیٹر کی لمبی لائن لگ جاتی ہے لیکن لوگ حوصلے سے ایک دوسرے کے پیچھے انتظار کرتے ہیں، کوئی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور لائن توڑنے کی ہمت نہیں کرتا۔
لوگ عمومی طور پر اپنی لائن میں گاڑی چلاتے ہیں، سیٹ بیلٹ سبھی لگاتے ہیں، ہر بالغ اپنے جرمانے کا خود ذمہ دار ہے، اس لیے گاڑی میں بیٹھنے والے سبھی مسافر سیٹ بیلٹ لگاتے ہیں۔ ڈنمارک جہاں میں مقیم ہوں، وہاں سیٹ بیلٹ نہ لگانے کا جرمانہ 1500 کرون ہے جو پاکستانی 28 سے 30 ہزار روپے بنتے ہیں۔ اس طرح 10 فیصد تک اوور اسپیڈ ہونے کا جرمانہ کم از کم ایک ہزار کرون یا پاکستانی 18، 19 ہزار کے برابر ہوگا۔
پاکستان میں آج کل ٹریفک کے بڑھتے ہوئے جرمانوں پر بحث جاری ہے، ایک طرف کے لوگوں کا مؤقف ہے کہ قانون سبھی کے لیے برابر ہونا چاہیے اور دوسری طرف والوں کا ماننا ہے کہ پہلے غریب آدمی کی بنیادی ضررویات تو پوری ہونے دیں پھر اس کو سڑک پر چلنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔